افغان گورنر کی مداخلت بڑھنے پر پاکستانی قونصلیٹ بند کیا گیا

0

وجیہ احمد صدیقی
جلال آباد میں موجود پاکستانی قونصل خانہ گورنر ننگرہار کی جانب سے مداخلت پر بند کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق قونصلیٹ پر ویزوں کا بوجھ بھی بہت بڑھ گیا تھا کیونکہ جب سے دونوں ملکوںکے درمیان سفر کیلئے ویزوں کے اجراء کی سختی ہوئی ہے، اس کے بعد سے طے شدہ کوٹے سے زیادہ درخواستیں پاکستانی قونصل خانے کو موصول ہوتی ہیں۔ پاکستانی قونصل خانہ افغان پاسپورٹ پر کوئی ویزا فیس نہیں لیتا، بس افغان پاسپورٹ مشین ریڈ ایبل ہونا چاہیے اور افغان شہری کو ویزا کے حصول کیلئے خود موجود ہونا چاہیے۔ دوسری جانب گورنر ننگر ہار ہدایت اللہ ہدایت نے پاکستانی قونصل خانے پر بے جا دبائو ڈالنا شروع کردیا تھا۔ یہ دبائو ان کے من پسند لوگوں کو خلاف ضابطہ ریلیف دے کر فوری طور پر ویزا جاری کرنے کے حوالے سے تھا، جو قونصل خانے کے کام میں کھلی مداخلت تھی۔ جس پر پاکستانی قونصل خانے نے انہیں بتایا کہ یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے ویزا دیں یا نہ دیں۔ ذرائع کے مطابق گورنر ننگرہار نے یہی نہیں کیا بلکہ ویزا کے طلب گار افغانیوں کو قونصل خانے سے متصل عمارت میں ٹھہرانے کا انتظام کردیا جس سے قونصل خانے کی سیکورٹی کو سخت خطرات لاحق ہوگئے۔ گورنر ننگرہار کی سفارش کے حوالے سے قونصل خانے کو یہ تحفظات بھی ہیں کہ جن لوگوں کو ویزا دینے کی وہ سفارش یا حکم دے رہے ہیں وہ کہیں افغان یا بھارتی دہشت گرد تو نہیں یا کوئی بھارتی جاسوس تو نہیں ہیں۔ گورنر ننگرہار کی سفارشوں کو نہ ماننے اور نظر انداز کرنے پر گورنر ننگرہار نے جلال آباد میں پاکستانی سفارت خانے کی سیکورٹی کے عملے میں کمی کردی، جس سے قونصل خانے کی سیکورٹی کوخطرات لاحق ہوگئے۔ اس کے بعد پاکستان نے افغان صوبہ ننگرہار کے گورنر کی بے جا مداخلت پر جلال آباد کا قونصل خانہ عارضی طور پر بند کردیا۔
ادھر کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے حکام نے سفارتی معاملات میں گورنر ننگرہار کی بے جا مداخلت پر افغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے جلال آباد میں قونصل خانے کی سیکورٹی بحال کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ جب تک 28 اگست کی پوزیشن پر سیکورٹی بحال نہیں ہوتی، اس وقت تک پاکستانی قونصل خانہ بند رہے گا۔ کابل میں پاکستانی سفارت خانے سے جاری پریس ریلز میں بتایا گیا ہے کہ گورنر ننگرہار حیات اللہ حیات کے اقدامات ویانا کنونشن کے قونصلر تعلقات 1963ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دراصل جلال آباد کے شہریوں کا اقتصادی انحصار پشاور پر ہے۔ یہ شہر پشاور سے 114 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور کابل سے 333 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس لیے اپنی تجارت، صحت اور تعلیم کی خاطر انہیں پشاور آنا پڑتا ہے۔ گورنر ننگرہار نے قونصل خانے پر رشوت لینے کا الزام لگایا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی قونصل خانے کی سیکورٹی میں کمی لانے والے دن ہی یعنی 29 اگست کو افغانستان میں موجود بھارتی سفیر ونے کمار نے افغان انٹیلی جنس چیف حمد اللہ محب سے ملاقات کی اور اس کے ساتھ پاکستان کے معاملات پر گفتگو کی۔ ونے کمار پاکستان میں بھی بھارت کا سفیر رہا ہے۔ اس کی اس واقعے والے دن کی ملاقات یہ ظاہر کرتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا ہے۔
اس حوالے سے افغان امور کے ماہر اور عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’افغان حکومت میں ایک عرصے سے بھارتی اثرات ہیں جن کے زیر اثر ننگرہار کا گورنر بھی آسکتا ہے۔ لیکن اس وقت افغان حکومت میں امریکی اور بھارتی اثرات سے باہر نکلنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بہت سی اہم افغان شخصیات حکومت کو چھوڑ کر جارہی ہیں۔ ان لوگوں کو امریکہ کی طرف سے بہت سے تحفظات ہیں۔ یہاں تک کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی بھی ان کے دبائو میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ لیکن افغان طالبان کسی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ افغان حکومت کو اب طالبان کے علاوہ عوامی رد عمل کا سامنا ہے۔ بھارت کے خلاف عوامی رد عمل بہت سخت ہے۔‘‘ بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے مزید کہا کہ ’’اب افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کے درمیان بھی دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ معصوم استانکزئی جو این ڈی ایس کے سربراہ تھے، انہوں نے این ڈی ایس سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ پاکستان کے مخالف تھے، لیکن استعفیٰ کی وجہ ’’را‘‘ کی ان کے کاموں میں بے جا مداخلت ہی بنی ہے۔ استانکزئی کی سمجھ میں یہ آگیا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کا وجود مشکل ہے۔ افغانستان میں سیکورٹی امور سے متعلق لوگوں نے ہی استعفیٰ دیا ہے جن میں افغانستان کے وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی، وزیر داخلہ واعظ برمک اور این ڈی ایس کے سربراہ معصوم استانکزئی کے علاوہ ڈاکٹر اشرف غنی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حنیف اتمار بھی شامل ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی جگہ کوئی نئی ٹیم لانا چاہتا ہے۔ ایسے میں خطرات تو بڑھ ہی رہے ہیں۔ جلال آباد میں کئی بار بھارتی قونصلیٹ پر حملے ہوچکے ہیں اور پاکستانی قونصلیٹ کو بھی نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ پاکستانی قونصلیٹ سے افغانیوں کو شکایات بھی ہیں، اس لیے کہ ویزے کی پابندی کے بعد سے افغان باشندوںکو ویزا لے کر پاکستان آنا پڑتا ہے اور جلال آباد کے شہریوں کا کاروباری انحصار پشاور پر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو یہ شک گزرا ہو کہ جن لوگوں کی سفارش کی جارہی ہے، ان کے پاکستان کے سفر کا مقصد ہی کچھ اور ہو۔ دراصل جلال آباد میں ویزے کیلئے قونصل خانے کے باہر بہت بھیڑ جمع ہوجاتی ہے اور ان کی وجہ سے سیکورٹی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ افغان انتظامیہ نے چاہا کہ ویزے کے خواہش مند افراد کو قریبی عمارت میں ہی رہنے دیا جائے تاکہ صبح ہوتے ہی وہ ویزے کیلئے قونصل خانے پہنچ جائیں۔ لیکن جلال آباد انتظامیہ کا یہ فیصلہ قونصل خانے کی سیکورٹی کے خلاف تھا جس پر احتجاج کیا گیا تو گورنر ننگر ہار نے قونصل خانے کے سیکورٹی عملے میں کمی کردی اور کابل میں موجود پاکستانی سفیر نے قونصل خانے کی عارضی بندش کا اعلان کردیا کہ جب تک پرانی سیکورٹی بحال نہیں کی جاتی اس وقت تک قونصل خانہ بند رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More