سرفروش

0

قسط نمبر104
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
سچن بھنڈاری کو آٹو رکشا میں بٹھاکر میں درمیانی رفتار سے چل پڑا۔ ظاہر ہے، اس سے منزل پوچھنے کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس وقت وہ پوری طرح ہوش و حواس میں تھا اور اس کا موڈ بھی بہت خوش گوار تھا۔ اس کا اظہار وہ مشہور گانا ’’ہم ہیں راہیں پیارکے، ہم سے کچھ نہ بولیے‘‘ اپنی پھٹے ڈھول جیسی آواز میں گا رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اس وقت نہ صرف خود کو اس گیت کے گائیک کشور کمار کے پائے کا گلوکار سمجھ رہا ہے، بلکہ خود کو فلمی ہیرو دیوآنند سے بھی بڑھ کر چھیل چھبیلا محسوس کر رہا ہوگا، جن پر یہ گیت فلمایا گیا تھا۔ لیکن مجھے تو اس وقت اس کی شخصیت کے زیادہ سے زیادہ پہلو ٹٹولنے سے مطلب تھا۔ چنانچہ میں نے کہا ’’سر، تمہارا وائس ایک دم سپر ہے، اور تم بہت رومانٹک موڈ میں بھی ہے، اس لیے اور بھی اچھا لگ رہا ہے یہ سونگ! نائٹ کو تم ایک دم ٹُن تھا، تمہارا ٹیلنٹ معلوم ہی نہیں ہوا‘‘۔
میری بات سن کر وہ مزید ترنگ میں آگیا۔ ’’ارے یار، تم نے ٹھیک پہچانا۔ میں سورت میں اپنے کالج کا ٹاپ سنگر تھا۔ ہر فنکشن کی جان ہوتا تھا میں۔ سب لڑکیاں میرے آگے پیچھے گھومتی تھیں‘‘۔
میں نے کہا ’’باس تم اسٹائلش اور ہینڈسم بھی تو بہت ہے ناں۔ تم پر اب بھی بیوٹی فل لیڈیز مرتا ہوگا۔ ہم کو دیکھو، ہمارا باڈی ایک دم فٹ فاٹ ہے، شکل بھی برا نہیں، پھر بھی کوئی چھوکری گھاس نہیں ڈالتا‘‘۔
میری اس جھوٹی تعریف نے اسے سچ مچ جھاڑ پر چڑھا دیا ’’لڑکی پھنسانا ٹیکنیک مانگتا ہے مسٹر۔ ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے‘‘۔
میں نے عاجزی سے کہا ’’تو سچن سر، میں تم کو اپنا ماسٹر بناتا ہے۔ تم میرے کو بھی یہ ٹیکنیک سکھا دو، اپنے جیسا اسٹائلش بنا دو!‘‘۔
اس نے چونک کر پوچھا ’’تم کو میرا نام کیسے پتا چلا؟‘‘۔
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر تمہارا بینگلو کے گیٹ پر بڑا بڑا لکھا ہے… مسٹر سچن بھنڈاری !… میرے کو انگریزی پڑھنا اور بولنا آتاہے۔ بس ہندی میں پرابلم ہوتا ہے۔ تم ٹیچ کرو گے تو میں کوئکلی سیکھ لے گا‘‘۔
مغرور لہجے میں اس نے کہا ’’ابے یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہر کوئی نہیں سیکھ سکتا… اور اس کے لیے وقت چاہیے۔ تُجھے آٹو سے روٹی کمانے سے فرصت کیسے ملے گی؟‘‘۔
میں نے بے قرار ہوکر کہا ’’باس میں لعنت بھیجتا ہے اس آٹو پر۔ میرے کو بومبے کے روڈز پر دھکے کھانے میں سارا لائف نہیں گزارنا۔ تم میرے کو اپنے جیسا اسٹائل سے ڈریسنگ کرنا، بات کرنا، چلنا پھرنا سکھادو، اس کے بعد میں موویز میں اپنا لک ٹرائی کرے گا۔ ایک دن دلیپ کمار فلم اسٹار بن کے دکھائے گا۔ مدھو بالا اور مینا کماری کے ساتھ رومانس کرے گا‘‘۔
میں نے یوں ظاہر کیا جیسے میں جذبات میں بہہ گیا ہوں۔ میری بات سن کر اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔ میں نے قدرے خفگی سے کہا ’’سچن باس، ہم جانتا ہے تمہارا جیسا بننے میں ٹائم لگے گا، پر ہمارا فن تو نہ بنائو‘‘۔
اس نے فوری طور پر لہجہ بدل لیا ’’ابے ٹھیک ہے۔ میں دیکھتا ہوں‘‘۔
میں نے خوش ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا ’’تھینک یو باس… تو پھر آج ہی سے کلاس شروع کردو‘‘۔
اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’ابے ایسے ہی چیلا تھوڑی بن جائے گا تُو؟… گُرو بنارہے تو پہلے گُرو دکشنا تو دو ہم کو؟‘‘۔
میں نے انجان بنتے ہوئے کہا ’’وہ کیا ہوتا ہے سچن باس؟‘‘۔
اس نے مجھے سمجھایا کہ کسی کو گرو بنایا جاتا ہے تو اس کا احسان تسلیم کرتے ہوئے خصوصی نذرانہ پیش کیا جاتا ہے، جسے گُرو دکشنا کہا جاتا ہے۔ اس پر میں نے جوش بھرے لہجے میں کہا ’’یہ کون سا پرابلم ہے سر، آپ آرڈر کرو، ابھی حاضر کرتا ہے!‘‘۔
اس نے کہا کہ وہ مذاق کر رہا تھا، لیکن میں بضد ہوگیا ’’نہیں باس، اب تو آرڈر کرنا پڑے گا۔ آپ کے چیلا کا دل بہت بڑا ہے سچن سر، ایک بار چیک کر کے تو دیکھو‘‘۔
اس نے کہا ’’چلو ٹھیک ہے۔ جونی واکر وسکی کی ایک بوتل کافی رہے گی‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا ’’ تم فکر نہ کرو باس، ایوننگ میں تمہارا فیورٹ برانڈ لے کر بینگلو پر آئے گا… اوہ، مگر ادھر تو میڈم…‘‘۔
اس نے مسرور لہجے میں میری بات کاٹ دی ’’تم فکر نہ کرو۔ ابھی کافی دن تک معاملہ صاف ہے۔ ایسا کرنا رات دس بجے کے بعد اسی ہوٹل پر آجانا، جہاں سے تم نے مجھے اٹھایا تھا۔ میں تم سے بوتل لے لوں گا‘‘۔
’’بالکل ٹھیک ہوگیا سچن سر!‘‘۔ میں نے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’رات کو میں اسپیشل ڈریسنگ کرکے آئے گا… ایسا ٹاپ کا ہوٹل میں تو خیال رکھنا پڑتا ہے ناں سر!‘‘۔
اس نے میری رائے مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں، تمہیں ہوٹل کے اندر آنے کی ضرورت نہیں۔ گیٹ کیپر کو کہنا، وہ مجھے بلوادے گا۔ اس سے کہنا میں کیسینو میں رمی کی ٹیبل پر ملوں گا۔ تم سے وہ بوتل لے کر میں گاڑی میں رکھ دے گا۔ گھر پر کام آئے گی‘‘۔
ہوٹل میںگھس کر اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کا موقع ضائع ہوتے دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی۔ لیکن میں نے ابتدائی مرحلے میں اتنی پیش رفت ہی اطمینان بخش سمجھی۔ میں نے سوچا ہوسکتا ہے رفتہ رفتہ وہ خود مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ ہو جائے۔ میں نے اسے پوری طرح شیشے میں اتارنے کے لیے پہلے ہی کھل کر پیسہ خرچ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More