عمران خان
ملک کو اربوں روپے زر مبادلہ سے محروم کرنے کا ایک اور اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ملک بھر کی 88 کمپنیوں کی جانب سے 43 کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالرز کے مساوی زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ’’امت‘‘ کو حاصل دستاویزات کے مطابق یہ زر مبادلہ امریکی ڈالرز، برطانوی پائونڈز اور دیگر غیر ملکی کرنسی کی صورت میں فارن انوسٹمنٹ یعنی بیرون ملک سرمایہ کاری کے نام پر منتقل کیا گیا۔ تاہم فارن انوسٹمنٹ کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے لاگو شرائط کو پورا نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ملک 44 ارب روپے کے مساوی قیمتی زر مبادلہ سے محروم ہوا۔ جبکہ اس سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والے منافع اور اصل رقم یا منافع کو بھی پاکستان واپس لانے میں اسٹیٹ بینک اور اقتصادی رابطہ کمیٹی ناکام رہے۔
ذرائع کے مطابق ملکی ادارے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی دولت لوٹنے والوں اور کالا دھن بیرون ملک منتقل کرنے والوں کی کرپشن اور بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگاکر اسے واپس لایا جائے، تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا سکے اور ملکی معیشت مستحکم ہو سکے۔ اسی سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات میں ماضی کی بدعنوانیوں اور زر مبادلہ کی بے دریغ منتقلی کے حوالے سے بھی شواہد سامنے آنے لگے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف کمپنیوں کے ذریعے فارن انوسٹمنٹ کے نام پر ان کے سرپستوں نے بھی کالا دھن بیرون ملک منتقل کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوششیں کیں اور اس کے عوض ان کمپنیوں کو ملک کے اندر مختلف قسم کے فائدے پہنچائے۔ ذرائع کے بقول یہ معاملہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا تھا، جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، جس نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے گزشتہ پانچ برس میں بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے آڈیٹر جنرل پاکستان سے رپورٹ طلب کی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نشاط ملز لمیٹڈ، اعتماد انجینئرنگ، کے اے ایس بینک، جے ایس بینک، اینگرو کارپوریشن، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، لکی سمینٹ، ایم سی بی، یونائیٹڈ بینک، سورتی انٹرپرائزز، پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن، ہلٹن فارما، انڈس ڈائینگ، ڈائمنڈ فیبرک، صدیق اینڈ سنز لمیٹڈ، ڈی ایچ یل، سٹی اسکول اور اٹک سمینٹ کمپنی سمیت 88 کمپنیوں نے مجموعی طور پر 431 ملین ڈالرز جو اب 50 ارب روپے پاکستانی کے مساوی بنتے ہیں، بیرون ملک منتقل کئے۔ یہ رقم اسٹیٹ بینک کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی وزارت خزانہ کی ہدایات پر 2001ء میں جاری کئے جانے والے سرکل نمبر 12 کے تناظر میں منتقل کی گئی، تاہم سرکل میں لا گو شرائط کو کبھی پورا نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں اس کو ’’فلائٹ آف کیپٹل‘‘ یعنی زر مبادلہ کی چوری کے اسکینڈل کے طور پر ظاہر کیا گیا۔
سرکل نمبر 12/2001 کے مطابق جو بھی پاکستانی شہری بیرون ملک سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، وہ 5 لاکھ ڈالرز سے نیچے کی رقم اسٹیٹ بینک کے ذریعے بیرون ملک اپنے منتخب کردہ ملک کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرسکتا ہے۔ جبکہ 5 لاکھ کے مساوی یا اس سے اوپر کی رقم منتقل کرنے والوں کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے اجازت لینا ہوتی ہے، جس میں وفاقی وزارت خزانہ اور وفاقی وزارت کامرس کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوتے ہیں۔ قوانین کے تحت پیسہ باہر بھجوانے والوں کو سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع میں سے 34 فیصد مسلسل واپس پاکستان بھجوانا ہوتا ہے، اور اگر نقصان ہو جائے تو قوانین کے تحت اصل بھجوائی گئی رقم واپس ملک میں لانی ہوتی ہے۔ تاہم 2008ء سے 2013ء تک 88 کمپنیوں نے جو ڈالرز بیرون ملک بھجوائے، اس میں سے ایک فیصد رقم بھی واپس نہیں لائی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مذکورہ ایس آر او کے مطابق پاکستان کے رہائشی شہری اور کمپنیاں ٹیکس ادا کرنے اور منافع میں سے حصہ دے کر بیرون ملک سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔ ایس آر او نمبر 12 کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں کو پورٹ فولیو سرمایہ کاری یعنی بالواسطہ سرمایہ کاری کے بجائے ایکویٹی بیسڈ یعنی براہ راست، انفرادی، اجتماعی اور مساوی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔ یہ اجازت جن شرائط پر دی گئی ان کے مطابق سرمایہ کاری صرف ایسے ملکوں میں کی جائے گی جن کی حکومتیں منافع اور اصل رقم واپس کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ سرمایہ کاری صرف وہی کمپنیاں کرسکتی ہیںم جن کے مالکان پاکستانی ہیں۔ سرمایہ کاری صرف اس نوعیت کی غیر ملکی کمپنیوں میں کی جاسکتی ہے، جس نوعیت کا کاروبار پاکستا ن میں بھی موجود ہے یا مستقبل میں اس کی مہارت پاکستانی مارکیٹ میں بھی دستیاب ہونے کی ضمانت ہوگی۔ سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں یا افراد مالی طور پر مستحکم ہوں اور ان کا ٹیکس ادا کرنے کا ریکارڈ صاف ستھرا ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان کے اکائونٹس کا تین برسوں کا آڈٹ بھی دستیاب ہو۔ سرمایہ کاری کیلئے زر مبادلہ قانونی راستوں یعنی بینکوں اور منی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے ہی منتقل کیا جائے۔ سرمایہ کاری کی اجازت اسی وقت دی جائے گی، جب سرمایہ کاری ایسی کمپنیوں میں کی جائے جن کا مستقبل میں منافع بڑھنے کا قوی امکان ہو اور مستقبل میں اس سرمایہ کاری سے پاکستان کو فائدہ پہنچے اور افرادی قوت بھی پاکستان سے استعمال کی جائے۔ سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے والے ایک مہینے کے اندر منافع میں سے حصہ اور ٹیکس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو جمع کروائیں گے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 2014ء کے آڈٹ کے دوران معلوم ہوا کہ بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے پاکستان سے زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے والے شہریوں اور کمپنیوں کو قواعد کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانا اور منافع اور ٹیکس وصولی کو یقینی بنانا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری تھی۔ تاہم 2008ء سے 2013ء تک پانچ برسوں کے دوران اسٹیٹ بینک بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے بھیجے جانے والے قیمتی زرمبادلہ کی مانیٹرنگ میں اپنے فرائض درست طور پر انجام دینے میں ناکام رہا۔ اس دوران صرف دو کمپنیوں کی جانب سے ریٹرن فائل کیا گیا، جو کہ مجموعی رقم کا 0.54 فیصد بنتا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق ریگو لیٹری اتھارٹی ہونے کے ناطے اسٹیٹ بینک کو ایسے ڈیفالٹرز کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ 1947 کے تحت کارروائی کرنی چاہئے تھی۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا انکشاف ہونے پر آڈیٹر جنرل کی جانب سے مزید تحقیقات کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے لیٹر نمبر 03/CAP/SBP/spl-Audit/2014 کے ذریعے مذکورہ کمپنیوں کی فائلیں طلب کی گئیں جس کے جواب میں اسٹیٹ بینک نے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک انتظامیہ کی جانب سے ریکارڈ جان بوجھ کر نہیں دیا گیا کیونکہ اس معاملے میں اسٹیٹ بینک انتظامیہ اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ بعد ازاں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے لیٹر نمبر Audit/AC-1/Spl.Audit/2014 OM NO.01/ کے ذریعے اپنی مشاہداتی رپورٹ جاری کی گئی جس کے جواب میں اسٹیٹ بینک انتظامیہ نے موقف اختیار کیا کہ بیرون ملک سرمایہ کاری کے معاملات براہ راست اقتصادی رابطہ کمیٹی دیکھتی ہے اور ان پانچ سالوں میں ای سی سی نے ہی بیرون ملک سرمایہ کاری کے حوالے سے شہریوں اور کمپنیوں کی درخواستوں کو منظوری دی۔ 44 ارب بیرون ملک منتقل کرنے والی جن 88 کمپنیوں کی فہرست آڈٹ رپورٹ کے ساتھ منسلک ہے ان کے مالکان موجودہ حکومت کا مرکزی حصہ ہیں۔ جبکہ ایک کمپنی کے مالک وفاقی وزارت خزانہ سے منسلک ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران بیرون ملک سرمایہ کاری، در آمدات، بر آمدات کے علاوہ سبسڈی کے حوالے سے ایسے 22 ایس آر اوز اسٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، پاکستان کسٹمز اور ای سی سی کی جانب سے جاری کئے گئے، جن سے سینکڑوں افراد اور کمپنیوں نے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کے علاوہ منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا۔ یہ ایس آر اوز بظاہر ملکی معیشت کو مزید مضبوط کرنے کے لئے جاری کئے جاتے رہے لیکن ان میں موجود بعض خامیوں اور اداروں کی نگرانی نہ ہونے کا منفی استعمال کیا جاتا رہا۔