پنجاب میں بے بی فوڈ ز کمپنیوں کے کیخلاف ایکشن

0

مرزا عبدالقدوس
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے شیرخوار بچوں کیلئے خوراک تیار کرنے والی کمپنیوں کی دھوکہ دہی اور فراڈ کے خلاف سخت ایکشن کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) محمد عثمان نے متعلقہ اسٹاف کو حکم دیا ہے کہ جو کمپنیاں اور ادارے 20 ستمبر تک مطلوبہ قواعد و ضوابط کی پابندی پر پورا نہیں اترتے، ان کی پروڈکٹس مارکیٹ سے اٹھالی جائیں۔ واضح رہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپریل 2018ء میں بے بی فوڈز ریگولیشن ایکٹ 2018ء کے سیکشن (57) کے تحت تمام ایسے تمام ادارے جو شیر خوار بچوں کے لیے خوراک تیار کرتے ہیں، کیلئے قواعد و ضوابط مرتب کئے تھے اور انہیں ان پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ گزشتہ روز ڈی جی کیپٹن (ر) عثمان کو اتھارٹی کے ٹیکنیکل ونگ نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی، جس میں یہ ایشو بھی زیر بحث آیا۔ مذکورہ اجلاس کے بعد ڈی جی نے بے بی فوڈز کمپنیوں کو بیس ستمبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ ذرائع کے مطابق صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ نے بھی اس حوالے سے سخت احکامات جاری کئے ہیں۔
شیرخوار بچوں کیلئے اندرون ملک بھی کئی بڑی کمپنیاں اپنے مختلف برانڈز کے تحت بچوں کیلئے دودھ کے متبادل کے طور پر پھلوں، سبزیوں، دودھ وغیرہ سے بنی اشیا فروخت کر رہی ہیں۔ اپنی مارکیٹنگ بڑھانے کیلئے ایک ہی چیز مثلاً سیریلیک کے کئی برانڈ جو ایک ہی کمپنی کے ہیں، ان پر لکھا ہے کہ یہ چھ ماہ کے بچے کیلئے ہے۔ اسی کمپنی کی جانب سے ایک سال کے بچے کیلئے وہی پروڈکٹ مختلف رنگ کے ساتھ اور ڈیڑھ سے دو سال تک کے بچوں کیلئے بھی کسی اور رنگ میں وہی پروڈکٹ دستیاب ہے۔ اسی طرح خشک دودھ اور دیگر آئٹم جن کو غلط طور پر ماں کے دودھ کا متبادل قرار دیا جاتا ہے، مارکیٹ میں برائے فروخت موجود ہیں جو بالکل غلط اور دھوکا دہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو کمپنیاں اور ادارے بڑے پیمانے پر یہ خوراک تیار اور فروخت کر رہی ہیں ان میں نیسلے، بے بی فوڈز لمیٹڈ، DANALAC فوڈز، گربر (GERBER) بے بی فوڈز، Cow & gate فوڈز، مقامی طور پر MARI فوڈز، مچلز، نیشنل فوڈز، شان فوڈز وغیرہ نرم غذا، دودھ اور سیریلیک وغیرہ شامل ہیں۔ بڑی کمپنیاں ایک ہی چیز مختلف کلرز کی پیکنگ کے ساتھ فروخت کر رہی ہیں اور پنجاب فوڈز اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی بھی پرواہ نہیں کر رہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے چند ماہ بیشتر اس حوالے سے طے کیا تھا کہ یہ ادارے صرف وہ خوراک فروخت کر سکتے ہیں جو معیاری ہو اور اس پر واضح طور پر تحریر ہو کہ یہ ماں کے دودھ کا متبادل نہیں ہے۔ اس کی پیکنگ پر اس کے اجزائے ترکیبی اور ان کی مقدار صاف اور واضح طور پر اردو/ انگریزی زبان میں تحریر ہو۔ چونکہ بچوں کے لیے تیار کردہ یہ خوراک کسی بھی صورت ماں کے دودھ کا متبادل نہیں ہے۔ اس لئے ماں کے دودھ کے متبادل کے طور پر انہیں متعارف نہ کرایا جائے بلکہ پیکنگ پر یہ بھی لکھا جائے کہ یہ خوراک ماں کے دودھ کا متبادل ہرگز نہیں ہے۔ جو کمپنیوں یا ادارے بیرون ملک سے اس طرح کی خوراک درآمد کرتی ہیں ان پر کسی غیر ملکی زبان مثلاً جرمن، فرنچ وغیرہ میں تحریر ناکافی ہے۔ اردو یا انگلش زبان میں اس میں شامل تمام اشیا اور ان کی مقدار کے بارے میں تحریر ہو۔ اندرون ملک تیار ہونے والی یا بیرون ملک سے درآمد ہونے والی اس طرح کی تمام اشیا کی فروخت سے پہلے پنجاب حلال فوڈز اتھارٹی سے اس کے حلال ہونے کا تصدیق نامہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی نے یہ بھی طے کیا ہے کہ کسی فوڈ کمپنی کا نمائندہ کسی ڈاکٹر یا میڈیکل اسٹاف سے ملاقات کرکے اپنی کمپنی کی خوراک کے نمونے انہیں پیش نہیں کر سکے گا اور نہ انہیں قاتل کرنے کی کوشش کرے گا کہ ان کی اشیا وہ اپنے نسخے میں تحریر کریں۔ اسی طرح عوامی مقامات اور بازاروں میں بھی شیرخوار بچوں کی خوراک کی مارکیٹنگ نہیں کی جا سکے گی۔ سال میں صرف ایک بار ان اداروں کو اپنی پروڈکشن اور اشیا کی مارکیٹنگ اور متعارف کرانے کی اجازت ہوگی۔ دکاندار حضرات بھی جہاں اس خوراک کے ڈبے وغیرہ گاہکوں کیلئے ڈسپلے (DISPLAY) کریں گے، وہاں یہ تحریر بھی لگائیں گے کہ یہ خوراک ماں کے دودھ کا متبادل نہیں ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس سلسلے میں اپنے آفیسرز کو ایف آئی آر کے اندراج کی بھی اجازت دے دی ہے اور وہ کوئی بھی خلاف ورزی دیکھنے کی صورت میں مقدمہ دج کرانے کے مجاز ہوں گے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ترجمان حارث بن طاہر نے اس سلسلے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی اتھارٹی نے صحت مند اور صاف خوراک کی فراہمی کیلئے کئی تاریخی اقدامات کئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر جنرل کیپٹن (ر) محمد عثمان بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں اور ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔ حارث بن طاہر نے مزید کہا کہ ڈبلیو ایچ او کی بھی واضح ہدایات ہیں کہ جب تک ڈاکٹر تجویز نہ کریں، شیر خوار بچے کو یہ خوراک نہ دی جائے۔ لیکن ہمارے ملک اور صوبے میں اس بات پر قطعاً توجہ نہیں ہے اور شیرخوار بچوں کو یہ اشیا ماں کے دودھ کے متبادل کے طور پر استعمال کرائی جاتی ہیں، جو اس کی زندگی میں کئی بیماریوں اور مشکلات کا سبب بنتی ہیں۔ اسے روکنے کیلئے اتھارٹی فعال کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More