فضل الرحمان کو بٹھانے سے نواز لیگ کا انکار

0

اسلام آباد/ کراچی (نمائندہ امت/ اسٹاف رپورٹر) ملک کے 13ویں صدر کے لیے انتخاب آج ہوگا، جس کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئیں اور الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کردیئے ہیں۔ نئے پاکستان کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے تمام دعوے ٹھس نکلے، آخری روز بھی نام نہاد متحدہ اپوزیشن کسی ایک نام پر متفق نہ ہوسکی۔ مفاہمت کے چیمپئن کہلانے والے آصف زرداری ملکی صدارت کیلئے اعتزاز احسن پر ڈٹے رہے۔ نواز لیگ نے بھی مولانا فضل الرحمن کو بٹھانے سے انکار کردیا۔ شریک پی پی چئیرمین سے پیر کی شب ملاقات میں مولانا نے اپنی دستبرداری شہباز شریف کی رضامندی سے مشروط کی تھی تاہم، اعتزاز کو متفقہ صدارتی امیدوار بنانے پر مصر سابق صدر کی خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی ، جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے کورا جواب دے دیا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس وقت اپنا امیدوار تبدیل نہیں کرسکتے،ہمارے امیدوار مولانا فضل الرحمن ہی ہیں۔ذرائع نے مزید بتایا کہ اعتزاز احسن، خورشید شاہ، رضا ربانی اور قمر زمان کائرہ پر مشتمل وفد مذاکرات کیلئے رات گئے پارلیمنٹ لاجز بھی پہنچا جہاں انہوں نے ن لیگ کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق ودیگر سے بات چیت کی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔شریک پی پی چیئرمین سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ایم ایم اے صدر نے ہار مان لی اور کہا کہ پوری اپوزیشن کا ایک پارٹی کے امیدوار پر اتفاق کرنا مشکل ہے۔ پیپلز پارٹی اعتزاز پر ڈٹی ہوئی، جبکہ دیگر جماعتوں کا اس پر اتفاق نہیں۔ شہباز شریف نے بھی وہی موقف اپنایا جو پہلے تھا۔ رات گئے تک کی صورتحال کے مطابق الیکٹرول کالج میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ عارف علوی کو 350 ووٹ ملنے کے واضح امکانات ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ مل سکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ، ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی یعنی خیبر پختون، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 1174 ہے۔ان 1174 اراکین میں سے سینیٹ ارکان کی تعداد 104، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 342، جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کل ارکان کی تعداد 728 ہے۔ سینیٹ 104 ارکان پر مشتمل ہے اس ایوان میں چاروں صوبوں کے کل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں، جن میں سے 2 عمومی، جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے ۔پاکستان میں قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں ہیں، جن میں سے 272 عمومی نشستیں، 60 خواتین کے لیے اور 10نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ 272 حلقوں میں 39حلقے خیبر پختون، 12حلقے فاٹا، 3حلقے اسلام آباد، 141حلقے پنجاب، 61حلقے سندھ جبکہ 16 حلقے بلوچستان میں ہیں۔ قومی اسمبلی کے 342 ارکان کے ایوان میں 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ ان 60 مخصوص نشستوں میں سے پنجاب کے حصے میں 33، سندھ کے حصے میں 14، خیبر پختون کے حصے میں 9 جبکہ بلوچستان کے حصے میں 4 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں مگر یہ اقلیتی نشستیں صوبوں کے بجائے پورے پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 728 نشستوں میں سے عمومی نشستوں کی تعداد 577 جبکہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 151 ہے۔ قومی اسمبلی کے 272 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 577 انتخابی حلقوں کو ملایا جائے تو پاکستان میں کل انتخابی حلقوں کی تعداد 849 بنتی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے کل ارکان یا کل نشستوں کی تعداد 371 ہے۔ جن میں سے 297 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 66 اور اقلیتوں کے لیے 8 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ سندھ اسمبلی کے کل ارکان یا کل نشستوں کی تعداد 168 ہے۔ جن میں سے 130 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 29 اور اقلیتوں کے لیے 9 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ خیبر پختون اسمبلی کے کل ارکان یا کل نشستوں کی تعداد 124 ہے۔ جن میں سے 99 عمومی نشستیں ہیں، جبکہ خواتین کے لیے 22اور اقلیتوں کے لیے 3نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے کل ارکان یا کل نشستوں کی تعداد 65 ہے۔ جن میں سے 51 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 11 اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ایوان بالا یعنی سینیٹ، ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کے کل اراکین صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج ہیں۔ 6 ایوانوں کے 1174 ارکان (سینیٹ کے 104، قومی اسمبلی کے 342، پنجاب اسمبلی کے 371، سندھ اسمبلی کے 168، خیبر پختون اسمبلی کے 124 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے 65 صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ صدارتی انتخاب سے متعلق آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ایک ایک ووٹ ہوگا، لیکن چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔ یوں پنجاب میں 5.70 سندھ اسمبلی میں 2.58 جب کہ خیبرپختون اسمبلی کے 1.90 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج میں 1174 ارکان تصور کیے جاتے ہیں، تاہم اس وقت سینیٹ ارکان کی تعداد 104 کے بجائے 102 جبکہ قومی اسمبلی ارکان کی تعداد 342 کے بجائے 330 ہے۔ پنجاب اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے والے، اہل ارکان کی تعداد 371 کے بجائے 354، سندھ اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 168 کے بجائے 163، خیبر پختون اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 124 کے بجائے 112 جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 60 ہے۔ گویا آئیڈیل الیکٹورل کالج کے 53 ارکان اس وقت موجود نہیں اور یوں ملک کے حالیہ صدارتی انتخاب کے موجودہ الیکٹورل کالج میں 1174 نہیں بلکہ 1121 ارکان شمار کیے جائیں گے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ ملک میں ارکان کی تعداد کے حوالے سے سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اہل ووٹرز اور ممکنہ طور پر ووٹ ڈالنے والے ارکان کی تعداد 60 ہے۔ یوں باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹرز کی تعداد 60 ہی مانی جائے گی۔صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج 1174 ارکان کی موجودہ الیکٹورل کالج 1121 ارکان میں تبدیلی کی صورت میں آئیڈیل ووٹس بھی موجودہ ووٹس میں بدل جائیں گے۔ سینیٹ کے 102، قومی اسمبلی کے 330 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 240 (60 ضرب 4) ووٹ جمع کرنے کے بعد یہ تعداد 672 بنتی ہے۔ یوں آئیڈیل ووٹس 706 اب موجودہ ووٹس 672 میں تبدیل ہوجائیں گے۔ کل ووٹوں کی تبدیلی کی صورت میں وننگ گولڈن نمبر بھی اب 354 کے بجائے 337 ہوجائے گا۔ یعنی ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں اگر صدارتی انتخاب کے لیے موجودہ الیکٹورل کالج کے تمام 1121 ارکان ووٹ ڈالیں تو موجودہ ووٹ 672میں سے337ووٹ لینے والا ملک کا صدر منتخب ہوجائے گا۔ ایک ایسی صورتحال میں جب ملک کی سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 60 ہے تو اب باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل نہیں بلکہ اہل ووٹوں کو، 65 نہیں بلکہ 60 سے تقسیم کیا جائے گا۔ یوں پنجاب میں اس وقت 5.9 سندھ اسمبلی میں 2.538 جب کہ خیبرپختون اسمبلی کے1.86 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا
جائے گا۔ صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ڈاکٹر عارف علوی، مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن نامزد امیدوار ہیں۔ آخری اطلاعات تک اپوزیشن اتحاد، حکومتی اتحاد کے امیدوار کے مقابلے میں کوئی ایک متفقہ امیدوار لانے پر متفق نہیں ہوسکا اور امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی کی واپسی کا وقت ختم ہونے کے بعد جو حتمی فہرست جاری کی گئی اس کے مطابق آج 4 ستمبر کے صدارتی انتخاب میں 3 امیدواروں عارف علوی، مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری اعتزاز احسن کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ایسی صورت میں جیتنے والے امیدوار کو کل ڈالے گئے ووٹوں کے نصف سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور تینوں امیدواروں میں سے زیادہ ووٹ لینے والا صدر منتخب ہوجائے گا۔سینیٹ کے اہل 102 ووٹر اراکین میں سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 33، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 21، 4 آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد تحریک انصاف ارکان کی تعداد 16، بلوچستان سے آزاد سینیٹرز (ممکنہ بلوچستان عوامی پارٹی) کی تعداد 7، ایم کیو ایم پاکستان ارکان کی تعداد 5، فاٹا کے آزاد ارکان کی تعداد 4، جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی تعداد 4، نیشنل پارٹی ارکان کی تعداد 4، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ارکان کی تعداد 3، جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 2، مسلم لیگ فنکشنل یا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا ایک، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کا ایک رکن شامل ہے۔ سینیٹ کی ایک نشست اسحٰق ڈار کی کامیابی کا نوٹیفکشن معطل ہونے اور ایک نشست مسلم لیگ (ن) کے نعمت اللہ زہری کے استعفی کے باعث خالی ہے۔ قومی اسمبلی کے اہل 330 ووٹرز اراکین میں سے تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 151، نواز لیگ کے ارکان کی تعداد 81، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 54، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے ارکان کی تعداد 15، ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ارکان کی تعداد 4، آزاد ارکان کی تعداد 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد 3، جی ڈی اے ارکان کی تعداد 3 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔ قومی اسمبلی کی 12 نشستیں اس وقت خالی ہیں۔پنجاب اسمبلی کے 154 اہل ووٹرز اراکین میں سے تحریک انصاف کے 175، مسلم لیگ (ن) کے 159، مسلم لیگ (ق) کے 10، پیپلز پارٹی کے 7، آزاد 2 جبکہ پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 15 نشستیں اس وقت خالی جبکہ 2 نشستوں پر ابھی تک ارکان نے حلف نہیں اٹھایا۔ سندھ اسمبلی کے 163 اہل ووٹرز اراکین میں سے پیپلز پارٹی کے 97، تحریک انصاف کے 28، ایم کیو ایم کے 20، جی ڈی کے 14، تحریک لبیک پاکستان کے 3، جبکہ ایم ایم اے کا ایک رکن شامل ہے۔ سندھ اسمبلی کی 4 نشستیں اس وقت خالی جبکہ ایک رکن نے حلف نہیں اٹھایا۔ خیبر پختون اسمبلی کے 112اہل ووٹرز اراکین میں سے تحریک انصاف کے 76، ایم ایم اے کے 13، عوامی نیشنل پارٹی کے 8، نواز لیگ کے 6، پیپلز پارٹی کے 5 جبکہ 4 آزاد اراکین شامل ہیں۔ خیبر پختون اسمبلی کی 11 نشستیں اس وقت خالی جبکہ ایک نشست پر ابھی تک رکن نے حلف نہیں اٹھایا۔ بلوچستان اسمبلی کے 60 اہل ووٹرز اراکین میں سے بلوچستان عوامی پارٹی کے 24، ایم ایم اے کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 9، پاکستان تحریک انصاف کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 4، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، نواز لیگ اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی 3 نشستیں اس وقت خالی جبکہ 2نشستوں پر ابھی تک ارکان نے حلف نہیں اٹھایا۔ حکمران اتحاد اس وقت پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، پاکستان مسلم لیگ (ق)، جی ڈی اے، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ اس وقت اپوزیشن اتحاد میں نواز لیگ، ایم ایم اے، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی شامل ہیں۔پنجاب اسمبلی میں پاکستان راہ حق پارٹی، سندھ اسمبلی میں تحریکِ لبیک پاکستان جبکہ بلوچستان اسمبلی میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی بھی نمائندگی ہے۔ یہ تینوں کسی اتحاد کا باقاعدہ حصہ نہیں۔ سینیٹ میں 4، قومی اسمبلی میں 4، پنجاب اسمبلی میں 2 اور خیبر پختون اسمبلی میں 4 آزاد اراکین کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔ سینیٹ میں تحریکِ انصاف کے 16، ایم کیو ایم کے 5، بلوچستان عوامی پارٹی کے 7، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور مسلم لیگ فنکشنل یعنی جی ڈی اے کے ایک ایک رکن کو ملا کر حکمران اتحاد کے کل ارکان کی تعداد 30 بنتی ہے، یعنی عارف علوی سینیٹ سے باآسانی 30 ووٹ لے سکتے ہیں۔سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد میں نواز لیگ کے 33، جمیعت علمائے اسلام کے 4، نیشنل پارٹی کے 4، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 3، جماعت اسلامی کے 2 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن کو ملا کر ارکان کی کل تعداد 47 ہے، یعنی مولانا فضل الرحمن سینیٹ سے 47 ووٹ لے سکتے ہیں۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے کل ارکان کی تعداد 21 ہے یعنی چوہدری اعتزاز احسن سینیٹ سے باآسانی 21 ووٹ لے سکتے ہیں۔سینیٹ میں فاٹا کے 8 ارکان میں سے 4 ارکان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد باقی آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے۔ خفیہ رائے شماری میں ان 4 ارکان کا ووٹ تینوں امیدواروں میں سے کسی کو بھی پڑسکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 151، ایم کیو ایم کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 3، جی ڈی اے کے 3، عوامی مسلم لیگ (ق) اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک رکن کو ملا کر حکمران اتحاد کی کل تعداد 175 ہے، یعنی عارف علوی قومی اسمبلی سے بآسانی 175 ووٹ لے سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 81 جبکہ اس کے اتحادیوں میں ایم ایم اے ارکان کی تعداد 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد ایک ہے۔ یوں مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں97 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 54 ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قومی اسمبلی سے اعتزاز احسن اتنے ووٹ تو حاصل کر لیں گے۔ قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے۔ خفیہ رائے شماری میں ان 4 اراکین کا ووٹ تینوں امیدواروں میں سے کسی کو بھی مل سکتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 24، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 9، پاکستان تحریک انصاف کے 7 اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن کو ملا کر مرکز کے حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 41 تک جا پہنچتی ہے۔ اگر یہ تمام ارکان مرکز کے حکومتی اتحاد کو
سامنے رکھ کر ووٹ کریں تو عارف علوی کو بلوچستان اسمبلی سے 41 ووٹ مل سکتے ہیں۔بلوچستان اسمبلی میں ایم ایم اے کے 10، عوامی نیشنل پارٹی کے 4، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نواز لیگ کے ایک ایک رکن کو ملا کر بھی اپوزیشن اتحاد کے کل ارکان کی تعداد 18 بنتی ہے۔ لہٰذا یہاں سے مولانا فضل الرحمن باآسانی 18 ووٹ لے سکتے ہیں۔بلوچستان اسمبلی میں ایک ووٹ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا بھی ہے جو بظاہر حکومتی اتحاد کی طرف جاسکتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ایک اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل ہے جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، بلوچستان اسمبلی میں حکومت میں شامل ہیں۔ یوں مذکورہ جماعتوں کے ارکان کے صدارتی ووٹوں کی سمت کیا ہوگی۔ یہ بات ابھی صرف اندازوں تک محدود ہے۔خیبر پختون اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان کی تعداد 76 ہے۔ یعنی 76 کو 1.86 سے تقسیم کیا جائے تو خیبر پختون اسمبلی سے عارف علوی 41 ووٹ بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ خیبر پختون اسمبلی میں ایم ایم اے کے 13، عوامی نیشنل پارٹی کے 8، نواز لیگ کے 6 ارکان کو ملا کر اپوزیشن اتحاد کے ارکان کی کل تعداد 27 بنتی ہے۔ یعنی 27 کو 1.86 پر تقسیم کیا جائے تو خیبر پختون اسمبلی سے مولانا فضل الرحمن 14 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔خیبر پختون اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی کل تعداد 5 ہے۔ یعنی 5 کو 1.86 پر تقسیم کیا جائے تو خیبر پختون اسمبلی سے چوہدری اعتزاز احسن کو 3 ووٹ بآسانی مل سکتے ہیں۔ خیبر پختون اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 4 کو 1.86 پر تقسیم کرنے سے آزاد ارکان کا حق 2ووٹوں کے برابر بنتا ہے۔ یہ 2 ووٹ تینوں امیدواروں میں سے کسی کو بھی مل سکتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے 28، ایم کیو ایم کے 20 اور جی ڈی اے کے 14 ارکان کو ملا کر حکومتی ارکان کی کل تعداد 62 ہے۔ یعنی 62 کو 2.71 ارکان پر تقسیم کیا جائے تو سندھ اسمبلی سے عارف علوی 23 ووٹ بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں ایم ایم اے کا ایک ووٹ ہے۔ یعنی ایک کو 2.71 پر تقسیم کیا جائے تو 0.36 کا عدد حاصل ہوتا ہے، یوں بظاہر مولانا فضل الرحمن سندھ اسمبلی سے کوئی ووٹ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی کل تعداد 97 ہے۔ یعنی 97 کو 2.71 پر تقسیم کیا جائے تو چوہدری اعتزاز احسن، سندھ اسمبلی سے 36 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں تحریک لبیک پاکستان کے ارکان کی تعداد 3ہے۔ یعنی 3 کو 2.71 پر تقسیم کیا جائے تو ان کے پاس سندھ اسمبلی میں ایک صدارتی ووٹ ہے۔ مگر اس جماعت نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 175، مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان اور پاکستان راہ حق پارٹی کے ایک رکن کو ملا کر حکومتی ارکان کی کل تعداد 186 ہے۔ یعنی 186 کو 5.9 پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی سے عارف علوی 32 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے ارکان کی تعداد 159 ہے، یعنی 159 کو 5.90 سے تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی سے مولانا فضل الرحمن 27ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 7 ہے۔ یعنی 7 کو 5.9 پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی سے چوہدری اعتزاز احسن کے لیے بظاہر صرف ایک ووٹ ہی ممکن نظر آتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 2 ہے۔ 2 کو 5.9 پر تقسیم کیا جائے تو 0.33 حاصل ہوتا ہے یعنی آزاد ارکان علیحدہ سے ایک ووٹ کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ ہاں اگر انہیں کسی امیدوار کے کل ووٹوں میں شامل کردیا جائے تو ایک آدھ ووٹ کا فرق ڈال سکتے ہیں۔حکمران جماعت تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے امیدوار عارف علوی اگر اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں سینیٹ سے 30، قومی اسمبلی سے 175، بلوچستان اسمبلی سے 41، خیبر پختون اسمبلی سے 41، سندھ اسمبلی سے 23 اور پنجاب اسمبلی سے 32 یعنی کل ملا کر 342 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور اتحادی اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمن اگر اپنی اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سینیٹ سے 47، قومی اسمبلی سے 97، بلوچستان اسمبلی سے 18، خیبر پختون اسمبلی سے 14 جبکہ پنجاب اسمبلی سے 27 ووٹ یعنی کل ملا کر 203 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن اگر اپنی جماعت کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سینیٹ سے 21، قومی اسمبلی سے 54، خیبر پختون اسمبلی سے 3، سندھ اسمبلی سے 36 جبکہ پنجاب اسمبلی سے ایک ووٹ یعنی کل ملا کر 115 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے ووٹوں کی تعداد 11 جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے ووٹوں کی تعداد ایک ہے۔آزاد ارکان کے 11 ووٹ، خفیہ رائے شماری میں کس امیدوار کی طرف جاتے ہیں یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ آئین کے تحت صدارتی انتخاب کے ووٹنگ کے طریقہ کار میں کل ووٹوں، موجود ووٹوں یا اہل ووٹوں کے بجائے ڈالے گئے ووٹوں کا ذکر ہے۔ مثال کے طور پر اگر بلوچستان اسمبلی میں 60 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پنجاب اسمبلی کے 5 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔ لیکن اگر بلوچستان اسمبلی میں 30 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پھر پنجاب اسمبلی کے 10 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا، یعنی ہر صورت میں ووٹوں کی گنتی کا فارمولا پولنگ کے بعد ہی طے کیا جائے گا۔اس وقت صدارتی انتخاب کے لیے 1121 ارکان کا الیکٹورل کالج ہے۔ ان 1121 ارکان کے کل ووٹوں کی تعداد 672 ہے۔اگر مقابلہ ون ٹو ون طے پائے تو صدر منتخب ہونے کے لیے 337 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ تاہم میدان میں 3 امیدواروں کی صورت میں بظاہر عارف علوی پہلے، مولانا فضل الرحمن دوسرے جبکہ چوہدری اعتزاز احسن تیسرے نمبر پر نظر آرہے ہیں۔اس وقت 672 کے الیکٹورل کالج میں تحریک انصاف کے عارف علوی 342 ووٹوں کے ساتھ برتری لیے نظر آتے ہیں تاہم اپوزیشن کے ایک امیدوار ہونے کی صورت میں ان کے پاس مولانا فضل الرحمن کے 203 اور چوہدری اعتزاز احسن کے 115 ووٹوں کو ملا کر کل 318 ووٹ ہوسکتے تھے۔ آزاد ارکان کے 11 ووٹوں کو ملا کر یہ تعداد 329 تک بھی پہنچ سکتی تھی اور یوں خفیہ رائے شماری کے اس صدارتی انتخاب میں جوڑ توڑ سے مقابلہ کانٹے دار بنانا ممکن تھا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More