روس کیخلاف پہلا بڑا معرکہ جلال الدین حقانی نے جیتا تھا

0

کراچی (نمائندہ خصوصی) افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد ہونے والی مزاحمت میں جلال الدین حقانی کے گروپ کا کردار سب سے موٴثر تصور کیا جاتا ہے، تاہم ان کی یہ واحد کامیابی نہیں، 1980 کے عشرے میں جلال الدین حقانی کی زیر قیادت افغان مجاہدین نے پاکستانی سرحد کے قریب افغان شہر خوست کے اطراف میں سوویت یونین کی افواج کو تگنی کا ناچ نچادیا تھا۔ جلال الدین حقانی کی قیادت میں ہی افغان مجاہدین نے سب سے پہلے خوست کو قابض روسی افواج سے آزاد کرایا اور یہ مجاہدین کے کنٹرول میں آنے والا پہلا شہر تھا۔ جلال الدین حقانی 1939کے لگ بھگ زوران قبیلے کے ایک خوشحال تاجر کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے قبیلے کو جدران بھی کہا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے بیشتر افراد خوست اور پکتیا میں آباد ہیں۔ انہوں نے 1975 میں داؤد شاہ حکومت کیخلاف ہونے والی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد مزاحمت میں ان کا کلیدی کردار سامنے آیا۔ شروع میں وہ گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی میں رہے، پھر یونس خالص کی سربراہی میں قائم حزب اسلامی کے ایک دھڑے میں شامل ہوگئے۔ جلال الدین حقانی کو غیر معمولی شہرت 1980 کے عشرے میں ملی۔ افغان مجاہدین نے 1981 سے سرحدی شہر خوست کا محاصرہ کررکھا تھا، شہر کے اندر روسی افواج اور روس نواز افغان حکومت کی فوجیں موجود تھیں، لیکن مجاہدین نے اس کی رسد کا راستہ کاٹ دیا تھا۔ سوویت افواج صرف فضائی راستے سے ضروری سامان یہاں پہنچارہیں تھی۔ محاصرہ ختم کرانے کیلئے روس نے آپریشن مجسٹرل شروع کیا، جس میں 10 ڈویژن کے لگ بھگ فوج شریک تھی۔ آپریشن سے پہلے روسی فوج نے جلال الدین حقانی سے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ بھاری تعداد کے باوجود روسی افواج کو کئی مرتبہ پسپائی اختیار کرنا پڑی اور خوست پہنچنے تک اسے ایک ماہ لگ گیا۔ 1988 میں سوویت افواج شہر تک پہنچیں، لیکن اس کی سپلائی لائن مکمل طور پر بحال کرنے میں انہیں بعد میں بھی مشکلات کا سامنا رہا، کیونکہ شہر کے باہر جلال الدین حقانی کی قیادت میں مجاہدین بدستور موجود تھے، اسی علاقے میں مجاہدین نے کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے میزائلوں سے کئی روسی طیارے گرائے۔ 1991 میں خوست مجاہدین کے ہاتھ آنے والا پہلا شہر بن گیا۔ اس فتح اور اس سے پہلے 11 برس تک خوست کے کامیاب محاصرے کو جلال الدین حقانی کی عسکری قائدانہ صلاحیتوں کی عملی مثال قرار دیا جاتا ہے۔ اسی عرصے کے دوران جلال الدین حقانی نے ارگون اور جاجی میں سوویت افواج کے خلاف جہادی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا، جن میں نہ صرف بڑی تعداد میں روسی فوجی مارے گئے، بلکہ ان کے طیارے بھی تباہ ہوئے۔ مشرقی افغانستان میں جلال الدین حقانی کی عسکری فتوحات کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن جب کابل فتح ہونے کے بعد مختلف افغان کمانڈروں کے گروپ میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو جلال الدین حقانی نے اس کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ مجاہدین کی حکومت کے دوران وہ وزیر انصاف تھے۔ افغانستان پر کئی کتابوں کے مصنف امریکی پروفیسر برائن ویلمیز نے اپنی کتاب ”افغانستان ڈی کلاسیفائیڈ“ میں لکھا ہے کہ جب 1994 میں طالبان خوست تک پہنچے تو اسامہ بن لادن کے مشورے پر جلال الدین حقانی نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور طالبان کیلئے جلال الدین حقانی کی حمایت انتہائی اہم تھی، کیونکہ ان کے ساتھ طاقتور زوران قبیلہ تھا۔ طالبان حکومت بننے کے بعد انہیں سرحدی و قبائلی امور کا وزیر بنایا گیا۔ برائن نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 143 پر لکھا ہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ نے جلال الدین حقانی کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، لیکن حقانی نے امریکہ کی پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ بطور مسلمان ان کا فرض جارح افواج کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ برائن کا یہ بھی کہنا ہے کہ خانہ جنگی میں شریک نہ ہو کر جلال الدین حقانی نے غیر معمولی عزت کمائی تھی۔ جلال الدین حقانی کے انکار کے بعد امریکہ نے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش میں پاکستان اور افغانستان میں کئی ڈرون حملے کئے۔ اس دوران جلال الدین حقانی کے 8 بیٹوں میں سے 3 سراج الدین، نصیرالدین اور بدرالدین نیٹو و امریکی افواج کیخلاف کارروائیوں کی قیادت کرنے لگے تھے۔ سراج الدین حقانی والد کے انتقال سے برسوں قبل سے گروپ کی سربراہی بھی سنبھال چکے ہیں۔ برائن ویلیمز کے مطابق ان تینوں بھائیوں نے عراقی عسکریت پسندوں سے خودکش حملوں کے سلسلے میں تجاویز لیں۔ امریکی پروفیسر کا یہ کہنا تھا کہ جلال الدین حقانی کو ختم کئے بغیر امریکہ کبھی مشرقی پہاڑی علاقے کے عوام کی وفاداریاں کابل حکومت کیلئے حاصل نہیں کرسکتا۔ برائن ویلیمز نے یہ کتاب 2012 میں لکھی تھی۔ اس دوران جلال الدین حقانی کے جگہ ان کے بیٹے سراج الدین حقانی لے چکے ہیں، جو اپنے والد کی طرح ماہر عسکری کمانڈر تصور کئے جاتے ہیں۔ البتہ نصیرالدین 2013 میں اسلام آباد میں ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے، جبکہ ان کے ایک اور بھائی عبداللہ حقانی بھی اسی برس امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے۔ امریکہ نے جلال الدین حقانی اور ملا عمر کے سروں کی قیمت ایک، ایک کروڑ ڈالر (لگ بھگ ایک، ایک ارب پاکستانی روپے) مقرر کررکھی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More