عاطف نے ختم نبوت – ناموس رسالتؐ قوانین کو مسائل کا ذمہ دار قرار دیا
کراچی(امت نیوز) اقتصادی مشاورتی کونسل کا حصہ بننے والے قادیانی عاطف میاں آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کی حکومت کو مالی بحران سے نکلنے کے مشورے دیں گے تاہم وہ کس قسم کے مشورے دے سکتے ہیں اور ان مشوروں میں لپیٹ کر قادیانی ایجنڈا کیسے آگے بڑھایا جائے گا اس کا اظہار عاطف میاں خود ہی جون میں ٹوئٹر پر ٹوئیٹس کی ایک سیریز میں کر چکے ہیں۔ 19 جون کو کئی گئی 10 ٹوئیٹس میں عاطف میاں نے ناموس رسالتؐ اور ختم نبوت کے تحفظ کے قوانین کو پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جیسا کہ کسی بھی شعبے کے اسکالرز کا اظہار خیال کا طریقہ ہوتا ہے کہ بات کہیں سے شروع کرتے ہیں اور کہیں اور لے جاتے ہیں۔ عاطف میاں نے ان ٹوئٹس کا آغاز اس سوال سے کیا کہ پچھلے 40 برسوں میں پاکستان دوسروں سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے ؟ عاطف میاں نے کہا کہ میرے خیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ ’’ریاست کی صلاحیت‘‘ کم ہو رہی ہے اور پاکستانی ریاست ہر معاملے میں ’’پسپائی‘‘ اختیار کر رہی ہے۔ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے عاطف میاں نے پہلے اس پسپائی کی مثال تعلیمی شعبےکے حوالے سے دی۔ پھر فورا ہی وہ انتہا پسندی کے معاملے پر آگئے جس کی وجہ سے بقول ان کے پاکستان تنہا ہو گیا ہے اوراس کے نتیجے میں جی ڈی پی گر رہی ہے۔اپنی دلیل کو آگے بڑھاتےہوئے عاطف میاں کمال ہوشیاری سے انتہا پسندی کو تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے قوانین سے جوڑ دیتے ہیں۔عاطف میاں نے لکھا،بدقسمتی سے انتہا پسندی میں اضافہ ریاست نے نادانستہ طور پر خود کیا۔ یہ اضافہ تحفظ ناموس رسالت اور ’’مسلمانیت‘‘ کی تعریف وضع کرنے والے قوانین کے ذریعے کیا گیا، یہ اضافہ تعلیمی نظام اور میڈیا میں مخصوص نظریات راسخ کرنے سے ہوا۔ عاطف میاں نے اپنی ٹوئیٹس میں قادیانیوں کے خلاف 1974 میں پاکستان کی پارلیمنٹ سے ہونے والی آئینی ترمیم کا نام لیے بغیر اسے ’’مسلمانیت‘‘ کی تعریف وضع کرنے کے مترادف قرار دیا۔ یاد رہے کہ قادیانیوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو انہیں ’’غیر مسلم‘‘ قرار دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اس مؤقف کے ذریعے وہ پاکستان کے آئین کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو ’’نادانستہ ‘‘ قرار دے کر عاطف میاں نے پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کے مجموعی شعور کی بھی نفی کی ہے۔ عاطف میاں اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاست کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے ہی پاکستانی حکومتیں مقامی وسائل کو بروئے کار نہیں لا پا رہی ہیں، انہیں سڑکیں بنوانے کیلئے کوریا والوں کی،شہری ٹرانسپورٹ(میٹروز) بنانے کیلئے ترکی کی اور باقی تمام تعمیرات کیلئے چین کی مدد لینا پڑتی ہے۔ریاست کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے ہی محصولات جمع نہیں ہورہے۔سیریز کی آخر ٹوئیٹ میں عاطف میاں کہتے ہیں، جو بھی نئی حکومت آئے اسے ریاست کی صلاحیت میں کمی کے اس سلسلے کو الٹنا پڑے گا تاکہ پاکستان کے اقتصادی زوال کو روکا جا سکے۔ ان ٹوئیٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں عاطف میاں معاشی امور پر جو مشورے حکومت کو دیں گے ان میں لپیٹ کر قادیانیت کے خلاف قوانین کو منسوخ کرنے کی سفارشات کیسے آگے بڑھائی جائیں گی۔ کیونکہ ان قوانین کی بزور ریاستی طاقت منسوخی ہی ان کی نظر میں ریاست کی صلاحیت بڑھانے کا واحد طریقہ ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اور عاطف میاں کے معاملے پر نظر رکھنے والوں کیلئے ان کا تقرر تاحال معمہ بنا ہوا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اکتوبر 2014 میں عمران خان نے کہا تھا کہ انہیں عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہیں تھا اور علم ہونے کے بعد وہ عاطف میاں کو وزیرخزانہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عمران کے اس بیان پر عاطف میاں نے تحریک انصاف کو ٹوئٹر پر مخاطب کرتے ہوئے تنبیہ کی تھی، ’’عمران خان خدا بننے کی کوشش نہ کرو‘‘۔ عاطف میاں کا لہجہ واضح طور پر سخت اور تحکمانہ تھا۔ عمران خان کو سرعام اس انداز میں ان کے مخالفین نے بھی شاید ہی مخاطب کیا ہو۔ لیکن اس کے باوجود ساڑھے تین برس بعد انہی عمران خان نے عاطف میاں کو پاکستان کے معاشی مسائل کا حل تجویز کرنے والے ماہرین میں شامل کر لیا۔