محمد زبیر خان
بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی عوامی تحریک سے بوکھلاکر اوچھے ہتکھنڈوں پر اتر آئی۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کے دوسرے بیٹے کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ شیر کشمیر انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس میں لیب ٹیکنشین کی خدمات انجام دینے والے سید شکیل اختر پر دہشت گردوں کو فنڈنگ کا الزام لگایا گیا ہے اور تفتیش کے دوران ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سید صلاح الدین کے بیٹے سید شاہد یوسف کو بھی اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ محکمہ زراعت میں اسسٹنٹ شاہد یوسف اس وقت تہاڑ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب دونوں بیٹوں کی گرفتاری کے باوجود سید صلاح الدین کا مورال انتائی بلند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے شہدا کے خون سے غداری نہیں کروں گا۔ ادھر رواں سال بھارتی فوج کے ہاتھوں اب تک 68 سویلین شہید کئے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تحریک آزادی کشمیر سے خائف بھارت کی مودی سرکار نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کے خاندان کو ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے گزشتہ سال اکتوبر میں سید صلاح الدین کے ایک بیٹے سید شاہد یوسف کو جو ماہر زراعت ہیں اور شوپیاں میں اسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت میں خدمات انجام دے رہے تھے، گرفتار کرلیا تھا۔ اب چند دن قبل سید صلاح الدین کے ایک اور بیٹے سید شکیل اختر جو شیر کشمیر انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس میں لیب ٹیکنشین کی خدمات انجام دے رہے ہیں، کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے دونوں پر دہشت گردوں کو فنڈ فراہم کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں، لیکن خود بھارتی سرکاری نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کے حریت پسندوں کے ساتھ رابطوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ سید شاہد کو یوسف کو تہاڑ جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ سید شکیل اختر نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کی حراست میں زیر تفتیش ہیں۔ تفتیشی ایجنسی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ سید شاہد یوسف کے خلاف تاحال کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ ان کے بھارت میں موجود بینک اکاوئنٹ میں اتنی ہی رقم موجود تھی، جتنی ان کی تنخواہ تھی۔ جبکہ بیرونی ملک میں بھی ان کے کسی اکاوئنٹ کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ ذرائع کے مطابق سید شاہد یوسف کا کیس اب عدالت میں چل رہا ہے، مگر تفتیشی ایجنسی کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کئے جانے کے سبب کیس کی سماعت نہیں ہو پارہی۔ تفتیشی ایجنسی نے سید شکیل اختر کے حوالے سے بھی بتایا ہے کہ ان کے بینک اکاوئنٹ میں بھی اتنی ہی رقم ہے، جتنی ان کی تنخواہ ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں بھائیوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حزب المجاہدین کے ذرائع نے بھارتی حکومت کی جانب سے سید صلاح الدین کے خاندان پر مالی کرپشن کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت عوامی مزاحمت سے بوکھلا کر اوچھے ہتکھنڈوں پر اتر آئی ہے۔ حزب المجاہدین بھارتی حکومت کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں موجود سید صلاح الدین کے خاندان کا آڈٹ بین الاقوامی تنظیموں سے کروالے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
حزب المجاہدین کے چیف سید صلاح الدین نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور گزشتہ تیس سال سے ان سے ملاقات ہوئی نہ کوئی رابطہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے بچوں کی پرورش اور تعلیم میری اہلیہ نے کی ہے اور وہ بھی دو سال قبل اللہ کو پیاری ہوچکی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ بیٹوں کی گرفتاری پر کوئی دکھ نہیں تو یہ جھوٹ ہوگا۔ تکلیف اور دکھ ضرور ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دل ٹوٹ سا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود میرے عزم اور حوصلے میں کمی نہیں آئی ہے۔ کیونکہ میں جدوجہد آزادی کے شہدا کا وارث ہوں، جس کے لئے کشمیر نے چھ لاکھ بیٹے قربان کئے، ماؤں نے عصمتیں نچھاور کیں، قید و بند کی صعوبتں برداشت کیں۔ ان شہدا اور قربانی کا کوئی بھی سودا نہیں کروں گا۔ اگر بھارت یا کوئی اور یہ سوچ سکتا ہے کہ میں اپنے بیٹوں کی گرفتاری کے بعد کوئی سمجھوتہ کروں گا تو وہ یہ بھول جائے۔ کشمیر کی آزادی سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘‘۔ سید صلاح الدین نے کہا کہ ’’تیس سال کا عرصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس دوران میرے بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ تعلیم مکمل ہوئی اور دیگر معاملات ہوئے۔ لیکن میں کسی بھی ایونٹ میں شریک نہیں ہوا اور نہ ہی روایتی والد والا کردار ادا کرسکا۔ ماسوائے 1985ء میں بڑی بیٹی کی جب شادی تھی تو اس حوالے سے معاملات میں نے طے کئے تھے۔ مگر جب رخصتی اور نکاح پونا تھا تو اس وقت میں بھارت کے بدنام زمانہ ٹارچر سیل میں بدترین تشدد برداشت کر رہا تھا‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’جس دوسرے بیٹے سید شکیل اختر کو گرفتار کرکے تفتیش کی جا رہی ہے، اس نے 1985ء میں شیر کشمیر میڈیکل سینٹر میں چیڑاسی کی حیثیت سے ملازمت شروع کی تھی، جب اس نے میٹر ک کرلیا تھا۔ اس وقت میں جدوجہد میں مصروف تھا اور اپنے بچوں اور اہلخانہ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا۔ جب بیٹے نے میٹرک کرلیا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ تعلیم کو ختم کر دو اور جو بھی، جیسی بھی ملازمت ملتی ہے کرلو، تاکہ گھر کا انتظام چل سکے۔ جس پر اس نے شیر کشمیر میڈیکل سنٹر میں ملازمت کی اور کئی سال بعد وہ میڈیکل لیب ٹیکنیشن بن گیا۔ گزشتہ سال گرفتار ہونے والا بیٹا سید شاہد چھوٹا تھا۔ جب بڑے بھائی نے میٹرک کے بعد ملازمت کی تو چھوٹے بیٹے کو کچھ تعلیم کا موقع ملا اور وہ ماہر زراعت بن گیا‘‘۔ سید صلاح الدین نے مزید کہا کہ ’’کشمیر میں موجود میرے خاندان کو ہمیشہ پریشان کیا گیا۔ 1985ء میں میرے گھر کو زمین بوس کر دیا گیا تھا۔ اور پھر میرے پاکستان آنے کے بعد کسی طرح وہ دوبارہ تعمیر ہوا اور اب بیٹوں کی گرفتاری کے بعد تو واضح ہے کہ بھارت مجھے دکھ اور تکلیف دینا چاہتا ہے۔ اب ایک بیٹا تفتیش کے مراحل میں ہے اور دوسرا تہاڑ جیل میں دیگر قائدین آزادی کے ساتھ ہے۔ تہاڑ جیل میں جو ظلم و سٹم ڈھائے جاتے ہیں، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ تہاڑ جیل میں تو تشدد کر کے قائدین، رہنمائوں اور کارکناں کو اپاہج و ذھنی مریض بنایا جاتا ہے‘‘۔
انسانی حقوق تنظیموں، بھارتی حکومت اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں رواں سال تشدد اور انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے بدترین برس ہے۔ اب تک مجموعی طو رپر 263 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جس میں بہت بڑی تعداد سویلین کی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق 68 سویلین کو مارا جاچکا ہے۔ بھارتی حکومت کے دعوے کے مطابق اب تک جہادی تنظیموں کے ایک سو تیس افراد کو مارا جا چکا ہے، جبکہ چالیس پولیس اہلکار اور 25 بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ یہ تمام اعداد و شمار وہ ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ مقامی ذرائع کے مطابق سویلین شہدا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو بتائی جا رہی ہے۔ جبکہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، مگر بھارتی فوج اسے خفیہ رکھ رہی ہے۔