قرآن نے میری کایا پلٹ دی

0

میر ے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آئے تاکہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر کے چلے گئے۔ میری بڑی بہن ماہر نفسیات تھی، اس نے اعلان کر دیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔
میری تعلیم مکمل ہو چکی تھی، میں نے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کر لی، لیکن ایک روز میری گاڑی کوحادثہ پیش آ گیا اور تھوڑی سی تاخیر ہو گئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدایشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی، جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کر دی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے حضور سر بسجود ہو گئی اور گڑگڑا کر خوب دعائیں کیں۔ خدا نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور دوسر ے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹر سیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلا معاوضہ ہونے لگا۔
ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور خدا کے فضل سے یہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ تندرست ہو گیا اور میری جان میں جان آئی۔ لیکن آہ! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا، آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ’’جمہوری‘‘ ملک کی ’’آزاد‘‘ عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہو گا اور تہذیبی اعتبار سے انہیں نقصان پہنچے گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے، مگر خدا کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیئے گئے۔
اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور تبلیغ دین میں منہمک ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری محرومیوں کے باوجود ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی۔ میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی با عمل مسلمان سے عقد ثانی کر لینا چاہیے کہ عورت کے لیے تنہا زندگی گزارنا مناسب و مستحسن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کر لی۔
یہ صاحب ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قرآن خوب خوش الحانی سے پڑھتے اور سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ میں دین سے ان کے گہرے تعلق سے بڑی متاثر ہوئی اور ان سے نکاح کر لیا۔ عدالت نے میری رقوم وا گزار کر دی تھیں، چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں، مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں، میں تمہارے لیے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لیے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔
میں نے اسے جو بھاری رقم دی تھی، چونکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لیے وہ بھی اس نے ہضم کر لی اور اس کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی رچا لی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More