اسلام آباد(نمائندہ امت/ایجنسیاں/امت نیوز) افغان طالبان سے براہ راست بات چیت کیلئے امریکہ پھر آمادہ ہوگیا،جب کہ انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ نو مور کی دعویدار تحریک انصاف حکومت نے امریکی وزیر خارجہ کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا کہ بات چیت کے عمل کی’’ قیادت‘‘ واشنگٹن خود کرے گا۔اس مقصد کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان جاکر طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کریں گے۔ مائیک پومپیو کے دورے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے تصدیق کی ان کا پہلا دورہ ہی کابل کا ہوگا اور یہ کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کردار ادا کرتا رہے گا۔وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان سے جلد انخلا کا اشارہ دیا ہے۔مبصرین کے مطابق تبدیلی کے دعویداروں سے توقع کی جارہی تھی کہ حکومتی سربراہ اپنے سے چھوٹے درجے کے افسر سے بات چیت نہیں کرے گا، اور ملاقاتیں وزارت خارجہ کی سطح پر ہی ہوں گے ،تاہم وزیر اعظم عمران خان نے خود ملاقات کرکے امریکی وزیر خارجہ کی یہ فرمائش بھی پوری کردی ،جو انہوں نے جنوبی ایشیا کے دورے پر روانگی کے موقع پر کی۔ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ میں چاہوں گا کہ نئے پاکستانی وزیراعظم سے ان کے دفتر میں ملاقات کروں۔دونوں ممالک کے درمیان متعدد مشترکہ مسائل ہیں، تاہم امید ہے کہ نئی حکومت کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکال سکتے ہیں، اور مشترکہ طور پر کام کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ ہم چاہیں گے کہ پاکستان افغانستان میں امن بحالی کیلئے تعاون کرے۔مائیک پومپیو نے پاکستانی حکام کو یہ پیغام بھی پہنچایا کہ پاکستان کو خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور جنگجوؤں کے خلاف مستقل اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔امریکی فوج کے جوائن چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ کے ہمراہ اسلام آباد آمد پر مائیک پومپیو نے پہلے اپنے سفارتخانے گئے پھر دفتر خارجہ پہنچے، جہاں تقریباً 40 منٹ تک وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی ،بعد ازاں انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے قریباً ایک گھنٹہ مذاکرات کئے ،جس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اورآرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی شریک تھے۔مختصر دورے کے بعدوہ بھارت روانہ ہوگئے ،جہاں اعلیٰ امریکی حکام 2 روز قیام کریں گے۔روانگی سے قبل نور خان ائیر بیس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کو افغانستان کا پرامن حل تلاش کرنا ہو گا۔ امید ہے کہ ہماری آج کی ملاقات مزید کامیابیوں کا باعث بنے گی۔طالبان کا نام لئے بغیر مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔ پاکستانی حکام پر واضح کردیا ہے کہ مشترکہ وعدوں اور یقین دہانیوں پر عملدرآمدکیا جائے اور انہوں نے اس پر آمادگی دکھائی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکام سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے، معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعلقات بہتر بنانے کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔ نئی حکومت کی پالیسیوں، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے اور معاشی و تجارتی شعبوں میں تعلقات مضبوط بنانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو ملاقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ’ٹف ٹالکنگ‘ ہوئی۔ ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا ،بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔پاک امریکہ تعلقات کا تعطل ٹوٹ گیا، امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقاتوں کے دوران پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان کا حقیقت پسندانہ مؤقف برد باری، خوداری اور ذمہ داری سے پیش کیا۔ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا ،جس سے قوم کی توقعات بلند ہوں۔ہم اپنے لوگوں کو دال ر وٹی کھلا سکتے ہیں ،اس لئے میں نے امدادی فنڈ روکے جانے سے متعلق بات نہیں کی ۔امریکی اہلکاروں سے ملاقات میں کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کو باڈی لینگویج سے اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ ملاقات خوشگوار تھی۔یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ مجھے امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے اور جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے جاؤں گا تو پومپیوسے بھی ملاقات ہوگی،امریکہ کو بتا دیا کہ بلیم گیم اور شیم گیم سے کچھ نہیں ملے گا ، افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے اور اس حوالے سے امریکہ کی سوچ تبدیل ہوئی ہے ،جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ امریکی وزیر خار جہ نے کہاہے کہ یہ معاملہ ہمارا محکمہ خارجہ ڈیل کرے گا ۔ اس میں دیگر اداروں کی معاونت بھی ہوگی ۔شاہ محمود کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملا ہے کہ آج امریکہ طالبان کے ساتھ ڈائریکٹ مذاکرات کے لئے تیار ہے ۔ امریکی وزیر خار جہ کی دوسری بات بہت معنی خیز ہے کہ امریکہ افغانستان میں زیادہ عرصہ قیام نہیں رکھنا چاہتا ۔ اس کے لئے واضح ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا ،لیکن اس میں ایک بہت واضح اشارہ موجودہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امریکہ وزیر خارجہ سے کہاہے کہ موقف سچائی پر مبنی ہونا چاہئے ،جب ہم ایک دوسرے کے تحفظات سنیں گےنہیں توپیش رفت نہیں ہوگی ۔ ہم نے اچھے انداز میں ان کی خواہشات کوسمجھا اور اپنے توقعات بھی پیش کیں۔ میں نے پومپیو کو واضح اشارہ کیا کہ آپ کو اس نئی حکومت کے مینڈیٹ کو سمجھنا چاہئے ۔ یہ ایک نئی حکومت ہے اور اس سے نئی توقعات وابستہ ہیں اور اس سے ایک نئی اپروچ ہوگی۔ اس نئی اپر وچ سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو از سرنو دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک سے مثبت اپروچ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت کا ایجنڈا ایک عام پاکستانی کی بہتری ہے ۔ اگر یہ ہمار ا ایجنڈ ہے تو پھر ہماری خارجہ پالیسی کو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے معاون بننا ہو گا ۔ ا س لئے ہم ایک نئی اپر وچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیاہے کہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستا ن کاہوگا ۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے ۔ مذہب اور کلچر نے ہم کو جوڑا ہوا ہے ۔ پاکستان اگر ترقی کرے گا تو اس کے فوائد افغانستان کو بھی پہنچیں گے ۔ آج کی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی پہلے دفتر خارجہ میں ہوئی اور اس کے ساتھ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ہوئی ، جب سیکرٹری پومپیو سے ملاقات ہورہی تھی، اس میں وزیر اعظم عمران خان ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے ۔ ہم نے مل کر تبادلہ خیال کیا ۔ پہلے ایسا ہوتارہاہے کہ وہ آئے پہلے یہاں ملے اور پھر جی ایچ کیومیں تشریف لے گئے اور پھر وہاں ملاقاتیں ہوئیں۔ آج مشترکہ ملاقات میں یہ پیغام گیاہے کہ ہم سب ایک پیچ پر ہیں اور پاکستان کا مفاد سب سے مقدم ہے اور ہم مل جل کر آگے چلیں گے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان سے مذاکرات میں آگے بڑھناہے تو پاکستان کی مدد درکار ہوگی اور پاکستان اس میں ایک مثبت کردار ادا کرے گا ۔ہم نے امریکہ پر واضح کردیاہے کہ اگر ہم نے مغرب کی جانب دیکھناہے تو پھر ہم کومشرقی سرحد پر سہولت درکار ہے ۔ کنٹرول لائن پر جو فائرنگ ہوتی ہے ،اس سے معصوم لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ قبل ازیں وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا طیارہ نور خان ایئر بیس پر اترا تو ان کا استقبال وزیر خارجہ کے بجائے دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری شجاع عالم نے کیا۔اس سے پہلے واشنگٹن میں میڈیا سےامریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں ثالثی کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کرے۔ تعلقات میں بہتری کے لیے اسلام آباد میں نئی حکومت کے ساتھ باہمی راستہ نکالنے کے لیے پُر امید ہیں۔ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’میری پہلی منزل پاکستان ہے، جہاں اب ایک نیا حکمراں ہے، میں وہاں ان کی حکومت کے ابتدا میں ہی جانا چاہتا تھا ،تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کوشش کی جائے۔ میں نے پاکستانیوں کے ساتھ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ کے طور پر ساتھ کام کیا ہے۔ ہماری ٹیمیں طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کر رہی ہیں‘۔ایک صحافی نے انہیں باور کروایا کہ ان کا دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے ،جب امریکا نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی تو ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں! یہ پاکستانیوں کے لیے خبر نہیں ہے، اس نے گزشتہ چند روز میں بہت ہیڈ لائنز بنائی ہیں، تاہم پاکستانی حکام کو چند ماہ قبل ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ انہیں یہ رقم نہیں ملے گی‘۔اس حوالے سے وہ (پاکستانی) خود واضح ہیں، ہم نے اب تک پاکستان کی جانب سے ایسی پیش رفت نہیں دیکھی جن کی ہمیں توقعات تھیں۔