محکمہ صحت میں ایڈہاک تقرر سے انتظامی ڈھانچہ متاثر
کراچی( اسٹاف رپورٹر) محکمہ صحت سندھ میں مختلف اسپتالوں اور اضلاع کے سربراہان کی جگہ ایڈہاک بنیادوں پر افسران کے تقرر سے اسپتالوں کا انتظامی ڈھانچہ و طبی امور بری طرح متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق 29 اگست 2018 کو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی سربراہی میں محکمہ صحت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے طلب کردہ اجلاس میں سندھ کے تمام اسپتالوں ، ہیپا ٹائیٹس کنٹرول پروگرام ، ایم این سی ایچ ، ایڈز کنٹرول سمیت دیگر پروگراموں کے سربراہوں وڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کاتقرر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے تحریری ٹیسٹ و انٹرویو میں کامیابی سے مشروط کیا گیا تھا۔اس اجلاس کے بعد چند اسپتالوں کے انتظامی افسران و ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران اور اسپتالوں کے سربراہان مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائرڈ ہو گئے ہیں ،جن کی جگہ عارضی بنیادوں پر افسران تعینات کئے گئے۔31 اگست کو ڈی ایچ او حیدرآباد ڈاکٹر ریاض احمد قریشی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس اسامی کا عارضی چارج ایم ایس شاہ بھٹائی اسپتال حیدر آباد ڈاکٹر نسرین میمن کو دیا گیا ہے ،ایم ایس کورنگی اسپتال ڈاکٹر مظہر خمیسانی کی 31 جولائی کو ریٹائرمنٹ پر عارضی چارج گریڈ 20 کے ڈاکٹر مرتضیٰ شاہ کودیا گیا ۔واٹر کمیشن کی ہدایات پر آر بی یو ٹی اسپتال شکار پور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خورشید احمد قاضی کی جگہ خالی اسامی کا چارج عارضی طور پرگریڈ 19 کے ڈاکٹر عاشق علی شیخ کو سونپا گیا ہے۔صوبے کے سب سے بڑے اسپتال ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کراچی کے ایم ایس ڈاکٹر محمد توفیق چوہدری 13 ستمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ حکومت نے ان کی جگہ پیپلز ڈاکٹر فورم کے سابق صدر اور گریڈ 20 کے آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر صابر میمن کو اس عہدے پر عارضی طور پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ڈاکٹر صابر میمن اس سے قبل ایڈیشنل سیکریٹری پرو کیورمنٹ مانیٹرنگ اینڈ انسپیکشن سیل تعینات رہ چکے ہیں۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسپتالوں کے سربراہوں کی تقرری کیلئے تحریری امتحانات کے انعقاد کے نتیجے میں اہل افسران کے آنے کی امید ہے ،تاہم ٹیسٹ کی تاریخ کا تعین نہ ہونے اور عارضی بنیادوں پر من پسند تقرریوں سے اسپتالوں کے انتظامی و معمول کے امور بری طرح متاثر ہوں گے، کیونکہ محکمہ صحت نے عارضی طور پر تعینات کئے جانے والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کو فنڈز استعمال کرنے کا اختیار نہیں دیا جس سے اسپتالوں اور صحت کے مختلف پروگراموں کے معاملات بری طرح متاثر ہوں گے۔مریضوں کو ادویات سمیت دیگر سہولیات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔