اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری،فریال تالپور، انور مجید، حسین لوائی اور دیگرملزمان کیخلاف تحقیقات کے لیے ایک بار پھر جے آئی ٹی بنانے کی بات کی اور کہا کہ ہم جے آئی ٹی بنا رہے ہیں جو ہر 15 دن بعد رپورٹ دیگی۔ ڈی جی ایف آئی اے نے استدعا کی کہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران بھی شامل کئے جائیں ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ڈی جی ایف آئی، انور مجید اور آصف زرداری کے وکیل پیش ہوئے۔عدالت نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تاہم ڈیڑھ گھنٹہ سماعت کے بعد تحریری حکم نہ لکھوایا گیا ۔ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن نے عدالت کے پوچھنے پر بتایا کہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، ایف بی آر، نیب، اسٹیٹ بنک، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے مدد چاہیئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ ایم آئی کی کیا ضرورت ہے جب آئی ایس آئی کو شامل کرنا ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ خفیہ اداروں کے پاس بہترین فرانزک ماہر ہیں اور کالز کا ڈیٹا مل جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کا تعین عدالت کرے گی۔اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جےآئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلیٰ کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلیٰ کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئے 35 ارب روپے کے فراڈ کا معاملہ ہے، قوم کا بھی بنیادی حق ہےکہ اس کا لوٹا گیا پیسہ واپس لایا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کو توجے آئی ٹی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، الزامات سے بری، کلین چٹ لے کردوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔وکیل شاہد حامد نے کہا کہ تفتیشی ادارے قانون کے مطابق اختیارات استعمال کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھان پھٹک کی اس لیے ضرورت ہے اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو کلئیر ہوجائیں، 35 ارب روپے جمع کرادیں تمام اکاؤنٹس کھول دیتے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ ایف آئی اے کے 35 ارب روپے کے اعداد و شمار جعلی ہیں، ایک اکاؤنٹ سے ایک کروڑ دوسرے میں گیا پھر تیسرے میں تو ایف آئی اے نے ضرب کر دیا۔شاہد حامد نے مزید کہا کہ اومنی گروپ نے 3 ارب روپے ڈالے، اتنے ہی نکالے اس میں کیا ہیرا پھیری ہے۔اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے سے تفتیش ہورہی ہو وہ معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا جاتا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر تفتیش کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم بنانا چاہتے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا پاناما معاملے میں سربراہ نیب نے تفتیش سے انکار کیا تھا، ایف آئی اے باصلاحیت ادارہ ہے، خود تحقیقات کرسکتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسے افراد کو شامل نہ کیا جائے جن پر ملزمان کو اعتراض ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس شخص پر ذاتی اعتراض ہے جس پر وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نجف علی مرزا پر ملزمان کو ذاتی اعتراض ہے، ایک ملزم نے نجف مرزا پر پہلے ایف آئی آر درج کرائی تھی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہے تو نجف مرزا کو جے آئی ٹی میں نہیں ڈالتے۔انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور انکے بیٹے عبدالغنی مجید کو ہر دفعہ تفتیش کیلئے بلایا جائے، اکاؤنٹنگ آفیسرز کو بلا سکتے ہیں، پگڑیاں اچھالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سیکورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے،جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی۔سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپہ مارا جس کے دوران کام کراؤن کمپنی دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بےشمار فارن کرنسی اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا۔دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاؤنٹس بھی انہی کے خاندان (انور مجید فیملی) کے ہیں جب کہ ان اکاؤنٹس میں بھی پہلے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے۔