کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)نیب کراچی 3 سال گزر جانے کے باوجود بھینس کالونی کی ساڑھے 4 ارب روپے مالیت کی 265 ایکڑ اراضی کے کیس کی تحقیقات مکمل نہ کرسکا۔ کےایم سی اسپورٹس کمپلیکس لانڈھی کے قیام کے لئے مختص اراضی صنعتی مقاصد کے لئے 276 پلاٹوں میں تقسیم کر کے 140 افراد کو کوڑیوں کے مول فروخت سے متعلق ریفرنس ازسرنوتحقیقات کیلئے احتساب عدالت سے واپسی کو بھی ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ بیت چکا لیکن نیب حکام کی سستی اور لاپروائی کے باعث فائدہ اٹھانے والے 25 افراد کے بیانات ہی قلمبندکئے جاسکے ۔115 افراد پیش ہی نہیں ہوئے۔کیس میں سابق نگران وزیر اعلیٰ سندھ اور سابق چیف سیکریٹری فضل الرحمان، گریڈ 19 کے روشن علی شیخ ، سابق سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن غلام مصطفی پھل گریڈ 19 کے سیف عباس نامزد ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نیب کراچی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے بھینس کالونی کراچی کی 265 ایکڑ اراضی سے متعلق دی جانے والی درخواست پر کیس یونیک آئی ڈی نمبر ID:221148-k کے تحت شروع کی جانے والی تحقیقات میں الجھ کہ رہ گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام نے اپنے طور پر اس کیس کی تفتیش مکمل کرنے کے بعد15 فروری 2017 کو احتساب عدالت میں ریفرنس پیش کیا تو عدالت نے اسے نا مکمل قرار دے کر واپس کر دیا اور یہ بھی کہا کہ جن بنیادوں پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے درخواست دی تھی ۔تحقیقات ان بنیادوں پر نہیں کی گئی اور نہ ہی فائدہ حاصل کرنے والے افراد کے بیان قلمبند کئے گئے ہیں۔ ازسرنو تحقیقات شروع کرتے ہوئے نیب حکام نے کوڑیوں کے مول سرکاری اراضی خریدنے والے 140 افراد کو نوٹس جاری کئے، تاہم ڈیڑھ برس بعد بھی صرف 25 افراد نے اپنے بیان قلمبند کروائے ،باقی افراد کے بیان قلمبند کرنے سے متعلق نیب حکام کی طرف سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ نیب حکام کی پروگریس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ زمین کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس لانڈھی کے قیام کے لئے مختص کی گئی تھی۔ اس زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے درخواست دی تھی ،جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ کھیلوں کے مقاصد کے لئے مختص زمین غیر قانونی طور پر صنعتی مقاصد کے لئے الاٹ کی گئی۔ابتدائی تفتیش کے بعد نیب کی طرف سے یکم جنوری 2015 کو سورس رپورٹ تیار کی گئی ۔21 اگست 2015 کو ڈی جی نیب نے ابتدائی تحقیقات کی منظوری دی۔ اس کیس کی تحقیقات کے لئے ڈی اے ڈی نیب سید محمد رضوان اللہ اور ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد طاہر کو مقرر کیا گیا اور 31 اگست 2016 کو اس کی باقاعدہ تحقیقات کی منظوری دی گئی۔ نیب کی پروگریس رپورٹ میں نامزد افراد میں سابق نگران وزیر اعلیٰ سندھ اور سابق چیف سیکریٹری فضل الرحمان، گریڈ 19 کے روشن علی شیخ ، سابق سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن غلام مصطفی پھل ، کے ایم سی کے افسران گریڈ 18 کی صبا الاسلام، گریڈ 17 کے محسن انصاری ، گریڈ 17 کا مشکور خان، گریڈ 17 کا شہزاد خان، گریڈ 19 کا محمد وسیم اور کے ایم سی کے ایک ریٹائرڈ افسر سہیل یار خان شامل ہیں ،جو ضمانت پر ہیں ،جبکہ گریڈ 19 کے سیف عباس اور ایک شخص شعیب میمن اس کیس میں بھی نامزد ہیں ۔نیب تحقیقات کے مطابق بورڈ آف ریونیو کی طرف سے دیہہ گانگھنیارو لانڈھی میں موجود 265 ایکڑ زمین 61-1960 میں وول واشنگ کے لئے کے ایم سی کو دی گئی۔ یہ زمین کے ایم سی کو صرف 7 لاکھ 82 ہزار، 900 روپے میں دی گئی ،جس کی مد میں کے ایم سی نے 4 لاکھ ، 800 روپے جمع کروائے۔ 72-1971 میں کے ایم سی نے نیلامی کے ذریعے 14 پلاٹ الاٹ کئے اور مزید کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن نےزمین استعمال نہ کئے جانے پر 1986 میں اپنے طور پر اس کی پولٹری اور ڈیری فارمنگ کے لئے الاٹمنٹ شروع کر دی۔دوسری جانب کے ایم سی نے 1993 میں کاٹج انڈسٹری کے نام پر 2 ہزار 334 پلاٹ دینے کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس مد میں 1998 تک مختلف افراد سے 4 کروڑ 97 لاکھ25 ہزار 800 روپے بٹورے گئے جس کی وجہ سے نئے الاٹیز اور پرانے الاٹیز میں قبضے پر جھگڑے شروع ہو گئے۔ اس سلسلے میں جب معاملہ محتسب کی عدالت میں پہنچا تو انہوں نے کے ایم سی کو لی گئی رقم واپس کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ کے ایم سی نے نہ پیسے واپس کئے اور نہ ہی حکومت سندھ کے کسی لیٹر کا کوئی جواب دیا۔اس تنازعہ کے حل کے لئے 1999 میں ڈی سی ملیر اور سینئر ڈائریکٹر لینڈ کے ایم سی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنی پر معاملہ پھر بھی حل نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ کو ایک سمری ارسال کی گئی جس میں وزیر اعلیٰ نے کے ایم سی کے حق کو تسلیم کر لیا۔ اس سے قبل سینئر سول جج ملیر کی عدالت نے سوٹ نمبر 13/202 میں اس زمین کو کے ایم سی کی ملکیت تسلیم کیا تھا۔ 2009/2010 میں کے ایم سی حکام نے محکمہ لینڈ یوٹیلائزیشن سے پرانی 30 سالہ لیز کی تجدید کے لئے درخواست دی جس پر محکمے نے انہیں کہا کہ پہلے واجبات ادا کریں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صبا الاسلام، محسن انصاری، مشکور خان، شہزاد خان اورکے ایم سی کے ایک رٹائرڈ افسر سہیل یار خان نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ افراد کو پلاٹ الاٹ کئے۔ سیف عباس اور محمد وسیم جو اس وقت ڈائریکٹر کے ایم سی تھے نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ پلاٹ بغیر نیلامی کے غیر قانونی الاٹ کئے جا رہے ہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر کو اتھرائزیشن لیٹر جاری کئے۔ فضل الرحمان ، غلام مصطفیٰ پھل، روشن شیخ اور شوکت حسین جوکھیو نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کے ایم سی افسران کی طرف سے غیر قانونی طور پر لیز کئے جانے والے پلاٹوں کی انٹری کی۔ اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر نے غیر قانونی طور پر ایک قرار داد پاس کروائی جس سے کرپشن میں ملوث کے ایم سی افسران کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ انہیں اسی علاقے میں مزید پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا اختیار دے دیا۔