کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) کے الیکٹرک کی جانب سے نیپرا احکامات ہوا میں اڑانا ہی حادثے کا سبب بنا، ریگولیٹری ادارے کی جانب سے گزشتہ 3 ماہ کے دوران احسن آباد سمیت اطراف کے علاقوں میں غیر قانونی بجلی تقسیم کے متوازی نظام کے خاتمے کے لئے یکے بعد دیگرے 3احکامات جاری کئے گئے، جن پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ البتہ حادثے کے بعد شواہد مٹانے کے لیے فوری طور پر ہائی ٹینشن اسپیل تبدیل کر دی گئی۔ دوسری جانب گڈاپ ٹاؤن کے مذکورہ علاقے میں مزید 100سے زائد پی ایم ٹیز ٹھیکے داری نظام کے تحت آپریٹ کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جنہیں 3 فیڈرز خان برادرز، الآصف اسکوئر اور پول 20 کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا تحقیقات 3 سال قبل احسن آباد کے رہائشی کی شکایت پر شروع کی گئی تھی۔ جولائی 2017میں کے بجلی کمپنی نے علاقے میں بجلی پہنچانے والی ہائی ٹینشن لائنوں کی تبدیلی اور بوسیدہ لائٹ ٹرانسمیشن لائنوں کو ایریل بنڈل کیبل میں تبدیل کرنے کا وعدہ بھی کیا، جس پر ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی عمل نہیں کیا۔ ‘‘امت’’ کے پاس نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو رواں برس بھیجے گئے تیسرے ریمانڈر 2018/8862/09 ٹی سی ڈی کی نقل بھی موجود ہے، جو احسن آباد واقعہ سے ٹھیک 19دن قبل 6اگست 2018 کو لکھا گیا تھا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر لشکر خان قمبران کی جانب سے چیف ایگزیکٹو افسر کے الیکٹرک کو لکھے گئے مکتوب میں کمپنی کیخلاف اشتیاق احمد کی درخواست پر کارروائی کے عنوان سے شکایت نمبر2016/220 کے ای درج ہے اور اس میں 2سابقہ خطوط 7جون 2018 اور 2جولائی 2018 کا حوالہ دیتے ہوئے شکایت دور کرنے کا حکم دہرایا گیا تھا۔ ‘‘امت’’ نے مذکورہ حکم نامے سے متعلق نیپرا کو شکایت کرنے والے کے الیکٹرک صارف اشتیاق احمد سے بات کی، تو انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے احسن آباد کے اطراف دیئے گئے کنکشن پر 3سال قبل کے الیکٹرک کے خلاف نیپرا میں شکایت کی تھی، جس پر 2سال تک کے الیکٹرک اور نیپرا کے درمیان خط و کتابت جاری رہی۔ بالآخر 2018میں ہمارے حق میں فیصلہ آگیا اور کے الیکٹرک کو تمام غیر قانونی کنکشن ختم کرنے سے متعلق حکم نامہ جاری ہوا۔ کے الیکٹرک نے مذکورہ علاقوں میں پی ایم ٹیز تو لگا دیں، لیکن بنڈل کیبل ڈالی گئی اور نہ ہی ہائی ٹینشن تاریں تبدیل کی گئیں۔ نیپرا نے رواں برس 3 بار کے الیکٹرک کو حکم دیا لیکن بجلی کمپنی نے احکامات ہوا میں اڑا دیئے۔ ہم نے آئی بی سی گڈاپ میں کے الیکٹرک ذمہ دار ضمیر شیخ سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ غیر قانونی کنکشن کی وجہ سے علاقے میں کنڈا مافیا سرگرم ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کنڈا ختم کرنا ہمارا کام نہیں۔ بنڈل کیبل کے حوالے سے ضمیر شیخ نے کہا کہ 3 اعشاریہ 6ملین کی منظوری مل چکی ہے، جلد ہی پورے علاقے میں بنڈل کیبل ڈال دی جائے گی۔ اشتیاق احمد نے ‘‘امت’’ کو بتایا کہ ضمیر شیخ اور ان کی انتظامیہ مذکورہ کنڈا نظام کے تحت کرپشن میں ملوث ہیں، جس کی وجہ سے اس غیر قانونی سسٹم کو ختم نہیں کیا جاتا اور نتیجتاً ہمارا معصوم عمر ان تاروں کے گرنے سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہوا جو جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اشتیاق احمد نے بتایا کہ جس روز نیپرا کی ٹیم نے جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ اس روز صبح سے علاقے میں ایل ٹی کی ایک تار ٹوٹی ہوئی تھی، جس کی شکایت درج کرنے کے 6گھنٹے بعد تار جوڑی نہ جاسکی۔ اہل محلہ سے علم ہوا کہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ افسران علاقے کے دورے پر ہیں تو میں وہاں پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ کسی دوسرے حادثے کا انتظار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایل ٹی کی تار جوڑی نہیں جا رہی، تو کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر نے اس وقت گاڑی بلوا کر متاثرہ ایل ٹی کی تار جڑ وائی۔ اشتیاق احمد نے بتایا کہ احسن آباد اور اطراف کے علاقوں میں غیر قانونی کنکشن سے کے الیکٹرک حکام کروڑوں روپے کما رہے ہیں، لیکن علاقہ مکینوں کو ضابطہ کے مطابق بجلی فراہم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘امت’’ کو ذریعہ سے کے الیکٹرک کی جانب سے نیپرا حکام کو 14دسمبر 2016میں بھیجے گئے ایک مکتوب کی نقل بھی وصول ہوئی، جس میں پی ایم ٹی کی اوور لوڈنگ اور بنڈل کیبل سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔ کے الیکٹرک کے جنرل منیجر کی جانب سے بھیجے گئے مکتوب 2400/2016/NAPRA/ (GMCRA # Ref میں نیپرا کے ڈائریکٹر کیڈ انجنیئر امتیاز حسین بلوچ کو مخاطب کیا گیا تھا۔ مذکورہ مکتوب کے الیکٹرک کی شکایت 2016/220 کے جواب میں بھیجا گیا تھا، جس میں 23نومبر 2016 کے نیپرا مکتوب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پی ایم ٹی کے اوور لوڈ ہونے کی وجہ کنڈوں کی بہتات ہے، جن کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی ہیں، تاہم کنڈا مافیا دوبارہ کنڈا ڈال دیتی ہے۔ اسی طرح ایریل بنڈل کیبل (اے بی سی) کنورژن اسکیم میں کے الیکٹرک انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ اس وقت اے بی سی کیبل ڈالنے کا عمل ابتدائی مرحلے میں ہے اور جولائی2017میں مذکورہ کیبل ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘امت’’ کو ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر سطح کے افسران احسن آباد اور اطراف سے ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کر رہے ہیں، جس وجہ سے وہ اس ٹھیکیداری نظام کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ نظام سے متعلق کے الیکٹرک اور نیپرا حکام لا علم نہ تھے پھر بھی کے الیکٹرک نے نیپرا حکم نامے پر عملدرآمد نہ کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہائی ٹینشن لائن کے ایک تار سے8 سالہ عمر اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہوگیا۔ دوسری جانب ‘‘امت’’ کو تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ کے الیکٹرک کے ڈائریکٹر ارشد افتخار، ڈائریکٹر ڈسٹری بیوشن عامر ضیا اور کلسٹر انچارج امتیاز علی خان کی ایما پر گڈاپ ٹاؤن میں ٹھیکے داری نظام کے تحت 100 سے زائد پی ایم ٹیز چلائی جارہی ہیں، جس سے مذکورہ افسران کو لاکھوں روپے کی اضافی آمدنی بھی ہوتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئی بی سی گڈاپ کے عملے کی مدد سے اطراف میں نصب 3فیڈرز خان برادرز فیڈر، الآصف اسکوئر فیڈر اور پول 20 فیڈرز کے ذریعے 100 پی ایم ٹیز کو غیر قانونی طور پر بجلی کی ترسیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان 3فیڈرز کے ٹرانسمیشن میپس بھی نیپرا کو جمع نہیں کرائے جاتے اور بجلی کی غیر قانونی فروخت جاری رکھی جاتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے ایچ ٹی کی وہ تاریں (اسپیل) ہٹا دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد مذکورہ تاروں سے متعلق کے الیکٹرک حکام سے دریافت بھی کیا تھا، تاہم کے الیکٹرک کے سیکورٹی چیف نے معاملے کو ٹال دیا۔کے الیکٹرک ذرائع کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ مذکورہ کیس میں اپنی غفلت چھپانے کے لئے آر الیکٹرک پر ملبہ ڈال دیا جائے، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ آر الیکٹرک کے ٹھیکیدار نے بجلی کمپنی کو لاکھوں روپے کی ادائیگی کے شواہد جمع کر لیے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اگر اسے مذکورہ معاملے پر پھنسانے کی کوشش کی گئی تو وہ کے الیکٹرک کی اعلیٰ انتظامیہ کے پول کھول دے گا۔