فیصل آباد کی انتظامیہ اور پولیس مسلمانوں پر حملے کے ملزم قادیانیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے معاملے پر ’’مٹی پائو‘‘ کی تیاری میں مصروف ہوگئی۔ کوشش ہے کہ آج ملزمان کی ضمانت بھی ہو جائے۔ پولیس اور انتظامیہ نے مقامی معززین کے ساتھ مل کر فریقین کے درمیان صلح بھی کرا دی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق گھسیٹ پورہ نامی گائوں کے نوجوان قادیانیوں کی کوشش عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ ان کے خلاف پولیس کی طرف سے ایسے مقدمات بنائے جائیں یا وہ ایسے تنازعات میں جان بوجھ کر الجھیں کہ نتیجتاً انہیں جرمنی کا ویزہ ملنا آسان ہو جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک اس گائوں کے بیسیوں قادیانی اور خواتین جرمنی میں سیٹل ہو چکے ہیں۔ جبکہ یہاں رہ جانے والے قادیانی نوجوانوں کی بڑی تعداد اسی امید کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتی ہے، تاکہ ان کی بیرون ملک جانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر صلح کرانے کیلئے سہولت کاری پر مجبور ہونے والے افراد میں سے ایک معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ ماہ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کی وجہ بھی ایسی ہی تھی کہ راشد نامی قادیانی نے بلا وجہ مقامی مسلمان سے لڑائی شروع کردی، کہ مین بازار میں موٹر سائیکل کے نیچے آنے سے بچاتے ہوئے اس مسلمان نے اپنے پائوں سے راشد قادیانی کی ملکیتی مرغی کو ہٹا دیا تھا۔ اس طرح ہٹائے جانے سے مرغی زخمی ہوئی نہ مری، لیکن راشد نے اسی کو جواز بناکر جھگڑا شروع کردیا کہ اس کی مرغی کو راستے سے ہٹانے کیلئے پائوں سے ٹھوکر کیوں لگائی گئی۔ اس ذریعے کے مطابق بعدازاں راشد اور اس کے قادیانی بھانجے شاہین نے اس تو تکار کو باضابطہ لڑائی میں تبدیل کر دیا اور شاہین گروپ نے رحمانی برادری کے مزمل وغیرہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں مسلمان نوجوان مزمل کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق گھسیٹ پورہ میں قادیانی نوجوان کم تعلیم یافتہ اور جھگڑالو ہونے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ جھگڑا کرکے وہ آسانی کے ساتھ جرمنی کا ویزا ہی نہیں وہاں روزگار بھی یقینی بناسکتے ہیں۔ اس ’’کامیابی‘‘ کیلئے انہیں اپنے خلاف محض ایک ایف آئی آر کی ضرورت ہے، جس کے ممکن ہو جانے کے بعد جرمنی میں موجود قادیانی رشتہ دار ان کیلئے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ پولیس کو رشوت دینے سے بھی نہیں چوکتے اور راہ چلتے مسلمانوں سے جھگڑنے اور ان پر حملہ آور ہونے سے باز نہیں آتے۔ حتیٰ کہ چند لکڑیاں اور ٹائر جمع کر کے اپنی عبادت گاہ یا رہائش کے قریب خود ہی آگ لگاکر تصاویر سوشل میڈیا وغیرہ پر ڈال کر اپنی ’’مظلومیت‘‘ کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند قادیانی نوجوان خود اپنی عمارت پر کلمہ طیبہ لکھ کر اس کے قریب آگے لگاکر یہ تاثر دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے کلمہ کو لکھنے پر ان پر حملہ کیا ہے۔ یہ حربے قادیانیوں کیلئے بیرون ملک روزگار اور خوش حال زندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیصل آباد ضلع میں واقع گھسیٹ پورہ گائوں کا چک نمبر 69 آر بی میں قادیانی آبادی دس ہزار میں سے تقریباً پندرہ سو پر محیط ہے۔ تاہم قادیانی لوگ گائوں کی تقریباً نصف زرعی اراضی کے مالک ہیں۔
صلح میں شریک ہونے والے سابق امیدوار برائے چیئرمین یونین کونسل عبدالجبار نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’’شاہین قادیانی کی مرغی نہ تو مری تھی اور نہ زخمی ہوئی تھی، لیکن اس کے باوجود جھگڑا کافی بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں شاہین گروپ نے مدثر سمیت آٹھ نو مسلمان زخمی کردیئے۔ جواباً مدثر گروپ نے بھی قادیانیوں کے شاہین گروپ کے چند افراد کو زخمی کیا۔ لیکن اس کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ اب تک زیادہ تر گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوئی ہیں۔ دوسرے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جتنے جتنے لوگ دونوں اطراف کے زخمی ہوئے تھے، پولیس نے صرف انہی کو گرفتار کرکے جیل بھیجا ہے۔ باقی کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ بلکہ پولیس کسی کو بھی گرفتار کرنے کے بجائے چاہتی ہے کہ یہ سب اپنی ضمانت کرالیں۔ پولیس نے اس سلسلے میں ملزمان کو پیغام بھی بھجوایا ہے۔ تاہم ملزمان ضمانت کرانے کے چکر میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ ایک سوال پر عبدالجبار کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے صلح کرادی ہے اور پولیس و انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بھی ملزمان کی ضمانت میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ تاہم اس سلسلے میں پولیس کو 295 اے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات ملزموں سے واپس لینا ہوگی‘‘۔ عبدالجبار کے مطابق دونوں اطراف کے اسٹامپ پیپر تیار کرالئے گئے ہیں، جو آج (جعہ کے روز) عدالت میں پیش کر دیئے جائیں گے۔
یاد رہے کہ ماہ اگست کے وسط میں شروع ہونے والے اس تنازعے کے باعث تقریباً 25 سے 30 افراد کے نام ایف آئی آر میں نامزد کئے گئے تھے، جبکہ ایک سو کے قریب افراد کو نامعلوم کے کھاتے میں ایف آئی آر میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ سب گائوں میں موجود ہیں اور انہیں تقریباً تین ہفتے بعد بھی پولیس نے ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق حکومت میں اعلیٰ ترین سطح سے قادیانیوں کیلئے باضابطہ کلمہ خیر کہنے کے آغاز کے بعد گائوں کے قادیانیوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ پولیس بھی حکومتی رجحانات کو سمجھ رہی ہے۔ اس لئے زیادہ امکان ہے کہ معاملہ آج ختم نہ ہوا تو چند دن بعد تک ختم ہوجائے گا اور قادیانیوں کے گرفتار چند افراد بھی رہا ہوجائیں گے۔ خیال رہے کہ جتنے مسلمان قادیانیوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے، وہ سارے کے سارے گرفتار ہیں اور ان کی تعداد قادیانیوں کے گرفتار ملزمان سے دو تین گنا زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں قادیانیوں کے مرکز ربوہ کے علاوہ حافظ آباد اور لاہور کے قادیانیوں کے بڑوں نے خصوصی دلچسپی لی، تاکہ قادیانیوں کی مزید گرفتاری نہ ہو سکے۔ پولیس نے گائوں میں مزید کسی واقعے کو روکنے کیلئے دو سو سے ڈھائی سو کی نفری گائوں میں تعینات کر رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق قادیانیوں کی عبادت گاہ میں عام طور پر پندرہ کے قریب افراد آتے ہیں۔ اس عبادت گاہ کے ہال میں بڑی ایل سی ڈی بھی لگائی گئی ہے، تاکہ قادیانی ٹی وی کی نشریات عبادت گاہ میں دیکھی جا سکیں۔ جھگڑے کے دوران عبادت گاہ کو کوئی ایسا بڑا نقصان نہیں پہنچا تھا۔ تاہم یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایل سی ڈی جلائی گئی تھی۔ ذرائع کے بقول 29 اگست کو اے سی جڑانوالہ، ڈی ایس پی سرکل، ڈی ایس پی آپریشنز اور ایس ایچ او تھانہ بلوچنی کی موجودگی میں 5 قادیانیوں کے مقامی امیر محمد شفیع اور نمبردار رانا ادریس اور دیگر نے صلح کی راہ ہموار کی اور دونوں طرف کے معززین پر مشتمل غیر رسمی کمیٹی بنادی گئی ہے۔ اس صلح کے نتیجے میں توقع ہے کہ ضمانتیں ممکن ہوجائیں گی۔