کراچی میں یومیہ 100 شہری سگ گزیدگی کا نشانہ بننے لگے

0

بلدیہ عظمیٰ کی نااہلی کے باعث کراچی میں آوارہ کتوں کی تعداد 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یومیہ 100 سے زائد شہری سگ گزیدگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچے، خواتین اور معمر افراد زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ دو سال قبل میئر کراچی کی جانب سے شہر کی تمام ڈی ایم سیز کو کتے مارنے سے روک دیا گیا تھا اور انڈس اسپتال کے ساتھ کئے جانے والے ’’فری ریبیز معاہدے‘‘ کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ اس پروجیکٹ کے حوالے سے انڈس اسپتال کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ کتوں کی افزائش روکنے کیلئے اس منصوبے پر باقاعدہ کام جنوری میں شروع ہوا تھا۔ آٹھ ماہ کے دوران ایک ہزار کتوں کی نس بندی کی گئی اور 3 ہزار کتوں کو ریبیز کے جراثیم مارنے والی ویکسین پلائی گئی۔ تاہم یہ مہم ابھی تک ابراہیم حیدری تک محدود ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق 40 ہزار سے زائد آوارہ کتے موجود ہیں۔ انڈس اسپتال کے ذمہ داران نے اعتراف کیا کہ کراچی میں کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ہر آنے والی شہری حکومت آوارہ کتوں کو مارنے کیلئے ہر ضلع میں مہم چلاتی تھی اور سالانہ 10 سے 20 ہزار کتے مارے جاتے تھے۔ تاہم گزشتہ 10 سال سے یہ مہم مال بنانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ نمائشی طور پر زہر دے کر سو دو سو کتے مار کر انٹری کرا دی جاتی اور فنڈز ہڑپ کر لئے جاتے۔ ہر ضلع کی ڈی ایم سیز 2 سے 3 لاکھ روپے فنڈز کتوں کے خاتمے کے حوالے سے وصول کرتی تھی، جس کی وجہ سے شہر میں آوارہ کتوں کی تعداد دن بدن بڑھتی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ 15 لاکھ سے زائد آوارہ کتے شہریوں کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، خصوصاً صبح کے وقت اسکول جانے والے بچے ان کتوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی میں ہر سال کتوں کی تعداد میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے چارج سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ شہر میں سگ گزیدگی پر قابو پانے اور کتوں کی تعداد میں اضافہ روکنے کیلئے انڈس اسپتال سے معاہدہ کررہے ہیں۔ کیونکہ ورلڈ اینیمل پروٹیکشن کی این جی اوز چاہتی ہیں کہ کراچی میں آوارہ کتوں کو بے رحمی سے نہ مارا جائے۔ بلکہ کتوں کو (بائولا پن) ریبیز کے جراثیم سے پاک کرنے کیلئے ان کی ویکسی نیشن کرائی جائے اور نر کتوں کی نس بندی کردی جائے۔ لیکن یہ منصوبہ اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ہے۔ شہر میں آوارہ کتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین، بچے اور بوڑھے افراد کتوں کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ شہری اس حوالے سے یونین کونسلز کے چیئرمینوں سے شکایت کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ کے ایم سی کونسل کے اجلاسوں میں وہ اس حوالے سے میئر کراچی کو توجہ دلا چکے ہیں کہ آوارہ کتوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور وہ بقرعید کے بعد آلائشوں پر لگا گوشت کھا کر مزید خونخوار ہو گئے ہیں۔ ان کیخلاف بڑے پیمانے پر مہم نہ چلائی گئی تو صورت حال انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے۔ لیکن میئر کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ کوئی آوارہ کتوں کو نہ مارے، بلکہ فری ریبیز پروجیکٹ والے خود کتوں کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ ضلعی بلدیات کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک این جی او نے آوارہ کتوں کے خلاف مہم کو جانوروں کے حقوق کا معاملہ قرار دے کر رکوا دیا تھا۔ جبکہ کراچی میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے سالانہ 35 ہزار سے زائد مریض سرکاری اسپتالوں میں آرہے ہیں۔ جبکہ نجی اسپتالوں میں علاج کرانے اور گھروں پر ٹوٹکے استعمال کرنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ واضح رہے کہ بلدیہ عظمیٰ نے 2 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے تھے، جس کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی، عالمی ادارہ صحت اور انڈس اسپتال میں ریبیز کیخلاف پروجیکٹ کا معاہدہ ہوا تھا۔ کیونکہ شہر میں آوارہ کتوں کے کاٹنے سے (بائولہ پن) ریبیز کی جان لیوا بیماری لگتی ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کیلئے دنیا بھر کی طرح کراچی میں بھی مہم شروع کی گئی کہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر اسٹریلائز اور نیوٹرالائز کیا جائے۔ لیکن یہ مہم سست روی کا شکار ہے۔ سرکاری، نجی اسپتالوں میں کتوں کے کاٹے کے یومیہ ایک سو سے زائد مریض آرہے ہیں۔ کچی آبادیوں اور مضافاتی بستیوں کے علاوہ پوش علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کے غول گھومتے نظر آتے ہیں، جو صبح کے وقت اسکول، کالج جانے والے طلبہ پر حملے کرتے ہیں جبکہ علی الصباح نماز فجر کیلئے مساجد جانے والے افراد بھی کتوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کو مارنے کے بجائے ان کی نس بندی کا کام ایسے وقت کیا جارہا ہے کہ جب شہر میں کتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ تمام کتوں کو پکڑ کر انہیں اینٹی ریبیز ویکسین لگائی جائے اور ان کی نس بندی کی جائے۔ جبکہ بلدیہ عظمیٰ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نئے پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس پروجیکٹ کے ذمہ دار ڈاکٹر آفتاب گوہر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابراہیم حیدری کے ساحلی علاقے میں بنائے گئے سینٹر میں آوارہ کتے پکڑ کر لائے جاتے ہیں اور تقریباً 4 ہزار کتوں پر پروسیس شروع کیا جاچکا ہے۔ اس ساحلی علاقے میں پہلے کام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابراہیم حیدری کے علاوہ لانڈھی، کورنگی اور اطراف کے علاقوں میں کتے کے کاٹنے کے واقعات شہر کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کا افتتاح جنوری میں کیا گیا تھا اور 8 ماہ کے دوران 4 ہزار کتے پکڑے گئے، جن میں سے ایک ہزار کی نس بندی کی گئی اور 3 ہزار کو اینٹی ریبیز ویکسین دی گئی۔ جن کتوں پر کام ہورہا ہے ان کے کان پر رنگ دار (علاقے کے حساب سے) ٹیگ لگا رہے ہیں۔ روزانہ 15 کے قریب کتوں کی نس بندی اور 30 سے زائد کو اینٹی ریبیز ویکسین دی جاتی ہے۔ لانڈھی نمبر 2 میں دو تین روز قبل کتوں نے درجن سے زائد افراد کو بری طرح کاٹا، ان کے زخموں کی سرجری کی جارہی ہے۔ اب کوئی کتا پاگل بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا فوری طور پر اینٹی ریبیز انجکشن لگائے۔ انہوں نے شہریوں کو انتباہ کیا کہ کتے کے کاٹنے کی صورت میں کسی چھوٹے کلینک یا اتائی ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں اور نہ ہی گھریلو ٹوٹکوں کا رسک لیں۔ بلکہ فوری طور پر سرکاری اسپتالوں یا بڑے نجی اسپتالوں میں دکھائیں، جہاں موثر علاج کی سہولیات موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابراہیم حیدری کی چار یو سیز میں 40 ہزار سے زائد کتے موجود ہیں۔ جبکہ کراچی میں آوارہ کتوں کی تعداد 18 لاکھ سے زائد ہے۔ پاگل کتے کی نشانی یہ ہے کہ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے یا اس کے سر سمیت جسم پر بڑے بڑے زخم ہوتے ہیں۔ ایسا کتا اگر کسی کو کاٹ لے تو اس شخص میں بھی بائولے پن (ریبیز) کے جراثیم آجاتے ہیں۔ متاثر شہری کسی بڑے سرکاری نجی اسپتال میں ضرور دکھائیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More