باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ مذاکرات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کولیشن سپورٹ فنڈز بند کرنے پر بات نہیں کی اور نہ ہی دہشت گردوں کو پاکستان میں پناہ دینے کے الزامات کے کوئی ثبوت مانگے۔ ذرائع کے مطابق مائیک پومپیو امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ انہیں ایسے الزامات پر ثبوت بھی دینے چاہیے تھے۔ ادھر عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کا خواہش مند بھی ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان انہی طالبان کے خلاف کارروائی بھی کرے۔ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگانے سے یہ بات بالکل عیاں ہو چکی ہے کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں الجھانا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ خود اس دلدل سے نہیں نکل پارہا۔’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے عسکری تجزیہ نگار سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں اس وقت افغانستان کی صورت حال سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغانستان امریکہ سے سنبھل نہیں پارہا ہے۔ امریکہ اب تک افغانستان میں 1.3کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے، لیکن کامیابی نے اس کا منہ نہیں دیکھا۔ 2012ء سے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جار ہا ہے۔ اوسطاً یہ شرح 22 فوجی روزانہ کی ہے۔ سالانہ یہ شرح آٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ 3 ہزارامریکی فوجی افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیںاور 30 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ ایک سوال پر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ’’امریکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی یہ حیثیت برقرار رہے اور چین اور روس ایک بار پھر عالمی طاقت بن کر نہ ابھرسکیں۔ اس نے ان ممالک کے ساتھ سرد جنگ شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان کو امریکہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ افغانستان میں امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب افغانستان سے قابض افواج نکل جائیں۔ اب پاکستان کو واضح فیصلہ کرنا ہوگا۔ پاکستان نے امریکہ سے وعدہ تو کیا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد دے گا۔ لیکن امریکہ یہ سب کام جبر کے ذریعے کرا رہا ہے۔ پاکستان کی فوجی امداد بند کی، فوجی تربیت کا سلسلہ بند کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے 66 افسران متاثر ہوئے۔ اور آخر میں پاکستان کو جو کولیشن سپورٹ فنڈ دیا جانا تھا اسے بند کر دیا۔ تو دوستی کا کوئی سلسلہ امریکہ کی جانب سے نہیں ہے۔ امریکہ افغانستان میں رہنا بھی چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے فوجی نہ مریں۔ ایسا ممکن نہیں ہے‘‘۔ جنرل (ر) عبدالقیوم کے بقول امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان سے ڈومور کا روایتی مطالبہ دہرا دیا ہے اور پاکستان پر افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کرنے اور دہشت گردوں، شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے پر زور دیا ہے کہ خطے کی سلامتی کے لئے دہشت گردوں، شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔ یعنی دنیا کی سپر پاور جن لوگوں کا مقابلہ نہیں کر پارہی، ان کو پاکستان سے لڑا دیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ اسلام آباد آکر پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ کرنا بھول گئے۔ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ تو ہے، لیکن دہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑے پارٹنرکی قربانیاں نظراندازکر دیں۔ اپنے دورے میں مائیک پومپیو پاکستان کی 60 ہزار سے زائد شہادتوں کا ذکر زبان پر نہیں لائے۔ مائیک پومپیو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے 80 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا ذکر بھی نہیں کیا۔عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان برف تو پگھلی ہے لیکن تعلقات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری امریکہ پر ہی ہے۔ اگر اسے تعلقات بہتر بنانے تھے تو اسلام آباد آنے سے پہلے اسے پاکستان کے فریز کیے ہوئے فنڈز کو بحال کرنا تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ پاکستان کے 300 ملین ڈالر کے کولیشن سپورٹ فنڈ کو بھی منجمد کردیا گیا۔ ایک سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے وزیر خارجہ نے اپنے تئیں خوش اخلاقی اورمہذب ہونے کا مظاہرہ کیا اور امریکہ کی ان حرکتوں کا ذکر نہیں کیا جو اس نے پاکستان کے خلاف کیں۔ پاکستان امریکہ کے کہنے پر ہی اس جنگ میں کودا تھا۔ پرویز مشرف نے امریکیوں کی ہر بات مان لی تھی اور اپنی ایک بات بھی نہیں منوائی تھی، جس پر خود امریکی بھی حیران ہوئے تھے کہ بنا کچھ لیے ہم کس طرح ان کے اتحادی بن گئے۔ کیونکہ اس سے قبل خلیج کی جنگ میں امریکیوں سے مصر کی حکومت نے اپنے تمام قرضے معاف کروائے تھے اور ان کا ایک فوجی بھی جنگ لڑنے کے لیے سعودی عرب نہیں گیا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ایک موقع ہاتھ آیا تھا۔ امریکہ سے بات کرنا تھی کہ وعدہ خلاف ہم نہیں آپ ہیں۔ آپ ہم پر پابندیاں بھی لگاتے ہیں اور ہم پر الزام بھی لگاتے ہیں۔ امریکہ نے یہ الزام لگایا تھا کہ پاکستان افغان طالبان کو پناہ دیتا ہے۔ جبکہ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اگر امریکہ کے پاس کوئی اطلاع ہے تو وہ پاکستان کو دے۔ ہمارے وزیر خارجہ کو ان سے مرعوب ہوئے بغیر سوال کرنا چاہیے تھا‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اب امریکہ پاکستان پر مزید اقتصادی پابندیاں لگائے گا، تاکہ پاکستان کو مزید دبائو میں لایا جاسکے۔ امریکی وزیر خارجہ پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے ہی آئے تھے۔ وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس کا اندازہ دو تین دن میں ہو جائے گا۔ پاکستان پر مسلسل دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگانے کا مقصد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ میں ڈالنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اپنے اس مقصدکو پورا کرنے کے لیے آئے تھے۔