تحریک انصاف کی حکومت اقتصادی مشاورتی کونسل میں قادیانی ماہر مالیات کو نامزد کرنے پر شدید مشکل کا شکار ہوگئی ہے۔ حکمران جماعت کے قریبی ذرائع کے مطابق دینی حلقوں کے دبائو اور عاشقان رسول کے ممکنہ شدید ردعمل کے خوف سے حکومت نے اقتصادی مشاورتی کونسل سے عاطف میاں کا نام نکالنے کیلئے مشاورت شروع کر دی ہے اور توقع ہے کہ اس حوالے سے جاری کئے جانے والے نوٹیفکیشن میں عاطف میاں کا نام شامل نہیں ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانی مشیر کی نامزدگی کے حوالے سے تحریک انصاف کے کئی ارکان اسمبلی نے بھی اپنے تحفظات وزیر اعظم عمران خان تک پہنچا دیئے ہیں۔ پی ٹی آئی میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر عمران خان عاطف میاں کی نامزدگی کا فیصلہ واپس لے لیں گے۔ دوسری جانب مذہبی جماعتوں کی جانب سے عاطف میاں کی تعیناتی کا دفاع کرنے پر وزیر اطلاعات کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول عمران خان کی جانب سے قادیانی ماہر معاشیات عاطف میاں کی تعیناتی کا اعلان بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک کی خوشنودی کیلئے کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کا مقصد مغربی دنیا میں تحریک انصاف حکومت کا سافٹ امیج بنانا تھا۔ کیونکہ ماضی میں ویسٹرن میڈیا کی جانب سے انہیں سخت گیر رہنما اور طالبان خان کہا جاتا رہا ہے۔ تاہم اقتصادی مشاورتی کونسل میں قادیانی عاطف میاں کو نامزد کرنے کے فیصلے کا کئی مغربی ممالک کے سفارکاروں نے خیرم مقدم کیا اور اپنے خیر مقدمی پیغامات حکومت تک پہنچائے تھے۔ ذرائع کے بقول اب وہ ممالک توقع کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت مذہبی حلقوں کے دبائو کو مسترد کرتے ہوئے جلد عاطف میاں کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردے گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ حکومت کیلئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اور وہ حکومت مخالف کسی عوامی تحریک کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے کا رسک کبھی نہیں لے گی۔ دوسری جانب تحریک لبیک اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بعد دیگر مذہبی تنظیموں نے بھی اس ایشو پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔ ان جماعتوں اور تنظیموں نے نہ صرف عاطف میاں کی تقرری کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی ہے، بلکہ ان کی جانب سے قادیانی مشیر کی تعیناتی کے فیصلے کا دفاع کرنے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو بھی وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ذائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کی حکومت کو نہ صرف مذہبی حلقوں کے دباؤ کا سامنا ہے بلکہ پارٹی کے اندر سے بھی ہر سطح پر اس فیصلے کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ کئی ارکان اسمبلی نے اس پر اپنے شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا ہے اور انتباہ کیا ہے کہ ایسے فیصلوں سے حکومت جلد ہی عوامی مقبولیت کھو بیٹھے گی۔ ممبران پارلیمنٹ نے عمران خان کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اگر حکومت، وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر بیٹھ گیا کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے سب سے زیادہ خوش قادیانی ہیں اور انہیں اہم و حساس سرکاری عہدوں سے نوازا جا رہا ہے، تو عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کے کارکنوں کا بھی کہنا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا پر اس حکومتی فیصلے کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اس وقت امریکہ اور مغربی دنیا قادیانی مشیر کی تعیناتی پر حکومت کی پیٹھ ٹھونک رہی ہے۔ جبکہ اندورنی طور پر اس فیصلے نے حکومت کیلئے بڑی مشکل صورت حال پیدا کردی ہے۔ توقع ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت بحران پیدا ہونے سے پہلے متنازعہ فیصلہ واپس لے لے گی۔ لیکن اگر مغرب کی خوشنودی کو مدنظر رکھ کر فیصلہ برقرار رکھا گیا تو حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ بلکہ تحریک انصاف کے کئی ممبران پارلیمنٹ بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور ملک میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
’’امت‘‘ کو ایک اور ذریعے نے بتایا ہے کہ عمران خان نے گزشتہ روز وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے عاطف میاں کی نامزدگی کے دفاع میں دیئے جانے والے دلائل اور جذباتی تقریر پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور اس کو بے وقوفانہ دفاع بلکہ اقرار جرم قرار دیا تھا۔ ذرائع کے بقول عمران خان چاہتے تھے کہ اس فیصلے کا محتاط الفاظ میں دفاع کیا جاتا۔ عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں سے اس بات پر بھی مشاورت کی ہے کہ وہ عاطف میاں کو تعینات نہ کریں اور یہ بھی کہ اگر فیصلہ برقرار رکھا جائے تو اس کے کیا کیا نقصانات ہوں گے۔ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اندرونی طور پر کوئی خلفشار اور احتجاج نہیں چاہتے اور انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے سکتے ہیں۔