عالمگیر نے اپنے بیٹے شہزادہ کام بخش کو صوبہ بیجاپور کی حکومت اپنی زندگی ہی میں دیدی تھی۔ شاہ عالم (بہادر شاہ) نے باپ (عالمگیر) کے بعد حیدر آباد کے صوبے کا اس پر اضافہ کردیا اور مفتی حافظ احمدؒ کے ہاتھ خلعت ہائے خاصہ و جواہر گران بہا وغیرہ بھائی کے پاس بھیجے۔ شہزادہ کام بخش سے اس کے ناعاقبت اندیش مشیروں نے شاہی ایلچی کے متعلق کہا کہ ارادہ فاسد سے آئے ہیں، اندیشہ ہے کہ حضور کے دشمنوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔
شہزادہ نے حکم دیا کہ ایلچی کے ہمراہ جس قدر آدمی ہیں، ان سب کی اسم نویسی کی جائے تاکہ ہماری سرکار سے سب کے نام حسب حیثیت یومیہ و نقد خوار کی مقرر ہو جائے۔ ایلچی کے پاس اکثر لوگ آتے رہتے تھے، ان میں کئی عالم و حافظ قرآن اور بے بضاعت تھے۔ ان سب نے اپنے نام ایلچی کے پاس لکھوا دیئے، چنانچہ حکم ہوا کہ ان سب کی آج ہمارے ہاں دعوت ہے، ان اجل گرفتوں کی تعداد 80 تھی۔ دس دس کی تعداد میں یہ لوگ اندر بلوائے گئے اور ان کو تیغ بے دریغ سے لقمۂ اجل بنانے کا انتظام کیا گیا۔
ان اجل گرفتوں میں دو حقیقی بھائی بھی تھے، ان کی والدہ مامتا کی ماری دوڑی آئی، فریاد و واویلا سے سر پر آسمان اٹھا لیا اور کہا کہ یہ ایلچی کے ہمراہیوں میں سے نہیں ہیں، صرف تنگ دستی کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔
شہزادہ نے یہ سوچ کر اس ظلم و ستم کا چرچا عام نہ ہو جائے، ملاسعد الدین مفتی حیدر آباد سے جو کہ دکن کے فاضلان متدین میں سے تھا، ان دونوں بھائیوں کے قتل کا فتویٰ طلب کیا۔ مفتی نے جواب میں شہزادہ سے کہا: آخر ان کا گناہ کیا ہے؟ شہزادہ نے کہا: یہ بادشاہی ایلچی کے ساتھ مل کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے تھے۔
مفتی نے کہا: سخن ساز لوگوں کے کہنے سننے سے محض سوئے ظن سے کام لینا شریعت کے خلاف ہے۔ آپ نے بے گناہ مسلمانوں کی جو خوں ریزی کی، قیامت کے دن اس کی جواب دہی اور ندامت تو ضروری امر ہے، لیکن اس ظلم و خوں زیری کا نتیجہ یہاں بھی اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہے گا ’’خون بے گناہاں‘‘ کی تاب نہ لا کر حیدر آباد کے اکثر شرفاء و فضلاء معہ اہل و عیال جدھر ان کے سینگ سمائے، چلے گئے ہیں، جب یہ لوگ باہر جائیں گے تو آپ کی ضعف سلطنت کا باعث ہوں گے۔
چنانچہ جب اپنے ایلچی کے محبوس ہونے اور بے گناہ مسلمانوں کے مارے جانے کی خبریں شاہ عالم کو پہنچیں اور شاہی خریطہ کا جواب ناصواب بھی اس کو مل گیا تو باوجود شدت بارش کے کوچ کردیا اور حیدر آباد کے متصل ایک عظیم جنگ ہوئی، جس میں شہزادہ کام بخش اور اس کے دونوں بیٹے مارے گئے۔ (حدیقہ العالم (فارسی) مقالہ دوم صفحہ 12 تا 15)
Prev Post
Next Post