حیدرآباد(بیورو رپورٹ) سندھ میں وزارت محنت اور اس کے اداروں کی نااہلی کی وجہ سے محنت کشوں کی بہبود کی تمام اسکیمیں نہ صرف کئی سال سے بند ہیں بلکہ لیبر اسکوائر کے 125کے قریب مکانات پر مافیا کے قبضے ہیں جبکہ ذیل پاک روڈ پر نئے تعمیر شدہ 3ہزار فلیٹس گزشتہ سالوں سے محض سودے بازی کے لئیے محنت کشوں کو الاٹ نہیں کئے جارہے ہیں ۔ حیدرآباد سمیت صنعتی علاقوں کے ہزاروں محنت کش ای او آئی بی اور سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔حیدرآباد ، کوٹری ، نوری آباد ، اور دیگر سائیڈوں کے علاقوں میں صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بڑی تعداد ٹھیکے داری اور تھرڈ پارٹی سسٹم کا شکار ہے جبکہ صرف 30سے 40فیصد محنت کش سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن اور ای او بی آئی میں رجسٹر ہیں صنعتوں کی انتظامیہ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اداروں میں گٹھ جوڑ کی وجہ سے محنت کشوں کا بڑے پیمانے پر استحصال ہورہا ہے۔ علاج معالجے اور بڑھاپے کی پنشن کی سہولتوں سے اکثریت محروم ہے جبکہ اکثریت کو تقرری لیٹر جاری نہیں کئے جاتے اس لئے محنت کشوں پر کسی وقت پر کارخانے اور ٹھیکیدارکے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں ۔سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی میں محنت کشوں کی اکثریت کو رجسٹرنہ کرنے پر فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور یہ ادارہ سودا طے کرکے وصولی کرکے خاموش ہوجاتے ہیں اوراگر کبھی ریکارڈ بنانے کے لئے کارروائی کرنا پڑے تو وہ بھی نمائشی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں محنت کشوں کے خاندان صحت کی عمومی سہولتیں سے بھی محروم ہیں، جبکہ خواتین و مردوں کو بڑھاپے کی پنشن بھی نہیں ملتی ،لیکن جعلسازی سے سوشل سیکورٹی اور ای اوبی آئی سے سہولتیں حاصل کرنے والوں کی بھی کافی پرانی تعداد ہے۔ افسران کی ملی بھگت اور سودے بازی سے بڑی تعداد میں نام نہاد محنت کش ناجائز طورپر سہولتیں حاصل کررہے ہیں۔ ورکرز ویلفیئر اسکیمیں معطل ہیں پیپلزپارٹی کی حکومت میں ورکرز ویلفیئر …سندھ کی نمائندگی سعید غنی کررہے تھے تووفاقی حکومت نے محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے ٹھکانے لگادئیے گئے تھے اور لوٹ کھسوٹ کی نذر ہوگئے اس دور سے سندھ کے محنت کشوں کا بری استحصال جاری ہے مسلم لیگ ن کی حکومت میں ڈیتھ گرانٹ کے جو کیس منظور کرکے جن کی رقوم سندھ کو منتقل کرائی گئی تھیں ان میں سے بھی درجنوں بیواؤں کی ڈیتھ گرانٹ کی رقوم نہیں ملیں نہ ہی گزشتہ سال سے یہ بتایا گیا کہ رقوم روکنے کی وجہ کیاہے اس طرح ڈیتھ گرانٹ کے دیگر سیکڑوں کیس پڑے ہوئے ہیں ۔محنت کشوں کے بچوں کے لئےشپ ڈریس ، کتب سمیت سہولتیں، بیواؤں کے لئے سلائی مشینیں دینے اور بہبود کی دیگر اسکیمیں بھی بند پڑی ہیں۔ سندھ حکومت مزدور فیڈریشنوں ، مزدور یونینوں کے برسوں سے جاری احتجاج کا نوٹس لینے تیا رنہیں ،جزوی طور پر اگر کسی اسکیم پر عمل ہورہا ہے تو وہ بھی سفارشی بنیاد پر بہت محدود کیاجا رہا ہے ۔اس کے نتیجے میں شدید مہنگائی غربت ہے اس دور میں محنت کش خاندانوں کی اکثریت کسمپرسی کا شکار ہے ان کے بچے صحت تعلیم سمیت معمولی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔ لیبراسکوائر میں محنت کشوں کیلئے تعمیر کئے گئے 125کے قریب فلیٹس اور مکانات پر مافیا کا قبضہ ہے ۔ محنت کش رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ فلیٹس پر فی کس لاکھوں روپے کمیشن وصول کرنے کے لئے سودے بازی کرنا چاہتا ہے اس لئے معاملہ تعطل کا شکا رہے اور لگتا ہی کہ فلیٹس اسی طرح خستہ حالی کا شکار ہوجائیں گے ۔معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں بھی ایک ہزار فلیٹس اسی طرح قبضے ہوگئے ہیں اور حقدار محنت کش خاندان محروم رہ گئے ہیں ۔