محمد قاسم
افغانستان کی بدنام زمانہ پل چرخی جیل میں گزشتہ روز قیدیوں اور جیل سیکورٹی حکام کے درمیان تصادم کے بعد افغان فوج کو طلب کرنا پڑا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل سے کئی اہم طالبان قیدیوں اور علمائے کرام کو نامعلوم مقام پر منتقل کئے جانے پر ہنگامہ ہوا تھا۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ جیل میں طالبان قیدیوں پر وحشیانہ مظالم کئے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب سرکاری ذرائع کے بقول جیل میں ایک قیدی کی وفات پر قیدیوں نے ہنگامہ آرائی کی تھی۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز کابل کی بدنام زمانہ پل چرخی جیل کے بلاک نمبر تین، پانچ اور چھ میں اس وقت جیل حکام اور قیدیوں کے درمیان تصادم شروع ہوگیا جب ان بلاکس میں قید بڑی تعداد میں علمائے کرام اور طالبان کمانڈروں کو نامعلوم مقام پر منتقل کرنا شروع کیا گیا۔ اس منتقلی پر ان کے ساتھی قیدیوں نے احتجاج کیا اور ان کی جیل سیکورٹی حکام کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوگئیں ۔کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے دوران سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے کئی قیدی زخمی ہو گئے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں طالبان قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کیا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کے حوالے مروجہ بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ افغان حکومت کابل یا ملک بھر میں کسی بھی واقعے کے بعد سارا غصہ طالبان قیدیوں پر نکالتی ہے۔ طالبان ذرائع کے بقول کابل میں داعش کی جانب سے ایک جم کلب اور صحافیوں پر کئے گئے خود کش حملوں کے بعد پل چرخی جیل میں قید علمائے کرام اور طالبان کمانڈروں کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، جس کی وجہ سے پل چرخی جیل میں حالات کشیدہ ہوئے۔ طالبان نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ کابل حکومت کو ان ظالمانہ کارروائیوں سے روکا جائے۔ دوسری جانب افغان حکومت کا کہنا ہے کہ پل چرخی جیل میں ایک قیدی کے انتقال پر اس کے ساتھیوں نے احتجاج کیا تھا۔ جبکہ طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا ایک طالبان قیدی قلم شاہ ولد برکت شاہ کا جیل سے باہر کسی اسپتال میں علاج نہیں کرایا گیا اور نہ ہی جیل میں مناسب طبی سہولیات و ادویات فراہم کی گئیں، جس سے وہ انتقال کر گیا۔ رواں سال یہ چھٹا طالب قیدی تھا جو مناسب علاج معالجہ نہ ملنے کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، افغان حکومت کی ان کارروائیوں پر خاموش ہیں۔ پل چرخی اور بگرام کی جیلوں میں ایسے سینکڑوں بے گناہ قیدی موجود ہیں، جنہیں صرف طالبان سے تعلق کے الزام پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں بڑی تعداد ایسے قیدیوں کی بھی ہے، جن کی سزا پوری ہو چکی ہے۔ لیکن طالبان کو دبائو میں لانے کیلئے ان قیدیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ پر بھی سینکڑوں قیدیوں نے حکومت کے ناروا سلوک کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی۔ عید کے موقع پر ان کے اہل خانہ کو ان سے نہیں ملنے دیا گیا، جو ان کیلئے کپڑے اور دیگر ضروری اشیا لائے تھے۔ جبکہ عید کے موقع پر حکومت کی جانب سے سزا میں تخفیف حاصل کرنے والوں میں بھی طالبان قیدیوں کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری جانب طالبان نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر اپنی قید میں موجود 200 سے زائد افغان سیکورٹی اہلکاروں کو چھوڑ دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بگرام اور پل چرخی جیلوں سے سینکڑوں طالبان قیدیوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔ ان قیدیوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے مذاکرات نہ کرنے کی صورت میں طالبان سے قطع تعلق کرلیں اور طالبان کے خلاف ایک سیاسی گروپ بنائیں تو انہیں نہ صرف رعایت دی جائے گی، بلکہ ان کی بھرپور حمایت بھی کی جائے گی۔ تاہم یہ قیدی افغان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کے معاملے میں ان پر دبائو نہ ڈالیں، کیونکہ کئی سال سے قید میں ہونے کی وجہ سے ان کے طالبان سے رابطے نہیں ہیں۔ تاہم افغان حکومت امریکی ایما پر ان طالبان قیدیوں پر مسلسل دبائو ڈال رہی ہے، لیکن حکومت اور امریکی حکام کو اب تک اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ دوسری جانب پل چرخی جیل میں ہنگامہ آرائی کے حوالے سے افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر سرچ آپریشن وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے، جس میں موبائل فون اور دیگر ممنوعہ اشیا برآمد ہوتی ہیں۔ جس پر قیدیوں کو ایک بیرک سے دوسری بیرک منتقل کیا جاتا ہے۔ پل چرخی جیل سے کسی کو باہر منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ بیرکوںکے اندر قیدیوں کو کچھ عرصے کے لئے ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ سیکورٹی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب افغان فوج کو پل چرخی جیل کے اطراف تعینات کر دیا گیا ہے، کیونکہ جیل میں قیدیوں کی جانب سے بڑی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ افغان طالبان نے افغان جیلوں میں طالبان قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر آئی سی آر سی (انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس) سے تعاون ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، کیونکہ آئی سی آر سی افغان حکومت کا قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے طالبان پورے ملک میں اب آئی سی آر سی کے اہلکاروں کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں لیں گے۔ جبکہ آئی سی آر سی نے طالبان سے اپنے اعلان پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔
٭٭٭٭٭