ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلے پر بھارتی عوام منقسم

0

سدھارتھ شری واستو
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی کو ’’جرم‘‘ کے زمرے سے نکالنے کے فیصلے پر بھارتی رائے عامہ منقسم ہو چکی ہے۔ مسلمان علمائے کرام کے سوا تمام مذاہب کی نمائندہ تنظیموں نے ’’موقع پرستی‘‘ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر سخت رد عمل نہیں دیا۔ ادھر ہندوئوں انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے ہم جنس پرستی پر یو ٹرن لیتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سراہا ہے اور اپنے ترجمان ارون کمار کے توسط سے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی تنظیم ہم جنس پرستی کو قبیح جرم نہیں سمجھتی۔ البتہ وہ اس کو فطرت سے دور لے جانے والا عمل سمجھتی ہے۔ حزب مخالف کی تنظیم کانگریس نے سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی پر دیئے جانے والے احکامات کو سراہتے ہوئے اس عمل کو ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ سے تعبیر کیا ہے، حالانکہ کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد نے پارٹی موقف کو بیان کرتے ہوئے ماضی میں کہا تھا کہ غیر فطری تعلقات کی بیماری یورپی ممالک سے بھارت میں آئی ہے اور اس سے ایڈز سمیت متعدد بیماریاں بھارتی معاشرے میں پھیلی ہیں جس کی روک تھام کیلئے ہم جنس پرستی پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ واضح رہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز جن میں کرن جوہر، فرحان اختر، ایس کے آہوجا، عامر خان، سویرا بھاسکر، آدیتی رائو، پریتی زنٹا، ارجن کپور، جان ابراہم، ایوش کھرانا شامل ہیں، نے بھی ہم جنس پرستی کے حق میں خوشی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب موقع پرست اور متعصب حکمراں تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس حوالہ سے تفصیلی یا وضاحتی بیان دینے کے بجائے منمناتے ہوئے اس فیصلہ کو درست قرار دیا ہے۔ جبکہ دہلی میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ مودی سرکار سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اس فیصلہ کیخلاف حکومت کی جانب سے نظر ثانی اپیل بھی دائر نہیں کی جائے گی۔ ادھر بھارتی ہم جنس پرست رہنمائوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیئے جانے کے بعد ان کو بھارتی مسلح افواج کے تینوں شعبوں میں بھرپور شمولیت کی اُمید ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی مسلح افواج ایئر فورس ایکٹ (1950) ملٹری ایکٹ (1950) اور بحریہ ایکٹ (1957) کے تحت مسلح افواج میں ہم جنس پرست افراد پر مکمل پابندی عائد رہی ہے، لیکن اب بھارتی عدلیہ کے فیصلہ نے مسلح افواج میں ہم جنسی کے دروازے قانونی اعتبار سے کھول دیئے ہیں۔ بھارتی جریدے پراگتی نے بتایا ہے کہ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں کارگزار عالمی تنظیم دی ہیگ سینٹر آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی افواج میں ہم جنس پرستوں کا تناسب 10 فیصد تک ہوسکتا ہے کیونکہ بھارتی آرمی کے تینوں شعبوں میں بڑی تعداد میں ہم جنس پرست موجود ہیں۔ جن کی حرکتوں اور موجودگی سے بھارتی عسکری قیادت مسلسل چشم پوشی کرتی ہے۔ دی ہیگ سینٹر آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مطابق دنیا کی 100 بڑی مسلح افواج میں ہم جنس پرستوں اور ہیجڑوں کی شمولیت کے اعتبار سے بھارتی مسلح افواج کا نمبر 34 واں ہے۔ بھارتی جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق آسام رائفل کے بھارتی ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل بھوپندر سنگھ نے بتایا ہے کہ زیادہ تر ہم جنس پرستی اور جنسی بیماری ایڈز کے کیسز منی پور، کشمیر اور ناگالینڈ میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ بھارتی عساکر کا دعویٰ ہے کہ جس دیش میں تیس لاکھ افراد ایڈز اور ایک کروڑ افراد جنسی بیماریوں کا شکار ہوں، اس کی مسلح افواج میں ساڑھے چھ ہزار ایڈز کے کیسز معمولی بات ہے۔ ہم نے ان متاثرہ فوجیوں کو فارغ کر دیا ہے۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ آیا بھارتی مسلح افواج میں کسی ہم جنس پرست کو شمولیت کی اجازت ہے تو لیفٹیننٹ جنرل بھوپندر سنگھ کا کہنا تھا کہ آرمی نیوی اور فضائیہ ایکٹ ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ امریکا سے شائع ہونے والے جریدے ہفنگٹن پوسٹ کے بھارتی ایڈیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اب جب کہ سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم کے زمرے سے خارج کردیا ہے تو یقیناً بھارتی پولیس، مسلح افواج سمیت حساس عسکری اور انٹیلی جنس کے شعبہ جات میں بڑی تعداد میں ہم جنس پرست بھرتی کئے جاسکتے ہیں۔ بھارتی جریدے ہندوستان ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے فیصلہ کی مخالفت صرف مسلمانوں اور انڈین آرمی کی جانب سے کی جارہی ہے۔ مسلمان رہنما اس کو دین اسلام اور روح کی پاکیزگی کے حوالہ سے قبیح فعل اور گناہ سمجھتے ہیں، جبکہ بھارتی مسلح افواج کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو انڈین آرمی میں کبھی قبول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ایسی حرکات میں ملوث افراد افواج کو گندا کردیں گے اور اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کیلئے سنگین خطرہ ہوں گے۔ لیکن اس ضمن میں بھارتی افواج کے سینئر افسران نے سنگین خطرہ کی وضاحت نہیں کی ہے۔واضح رہے کہ آرمی ایکٹ 1950ء کے تحت ہم جنس پرستی میں ملوث کسی بھی بھارتی فوجی یا افسر کو 7 سال قید یا کورٹ مارشل کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارتی جریدے ٹریبون انڈیا نے اپنی ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2017ء ہی میں جالندھر کی مقامی جیل کی خاتون وارڈنمنجیت کور نے اپنی گرل فرینڈ اور ساتھی اہلکار سیرت سدھو کے ساتھ پکا باغ مندر میں شادی رچائی تھی، جس کی اطلاع میڈیا میں ہوجانے کے بعد پنجاب پولیس کی ڈائریکٹر نے ان کو شوکاز جاری کیا تھا اور معطل کردیا تھا، لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد جیل وارڈن منجیت کور نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور اُمید ظاہر کی ہے کہ جلد ان کی شادی کو منظور کیا جائے گا اور ان کو بحال کیا جائے گا کیوں کہ اب بھارتی سماج میں ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں۔ واضح رہے کہ مودی سمیت سینئر رہنمائوں سبرامنیم سوامی، سوامی یوگی آدتیا ناتھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے روحانی گرو بابا رام دیو نے بھی ماضی میں ہم جنس پرستی کو منظم انداز میں ناقابل قبول قرار دیا تھا او ر دعویٰ کیا تھا کہ ہندو مذہب میں ہم جنس پرستی کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ لیکن آج بی جے پی بھی یو ٹرن لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی حامی بن گئی ہے اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اسمبلی کے فلور پر صرف تین ماہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم جنس پرستی بھارت کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ جب ہم جنس پرستوں کو بھارتی نیوی، ملٹری اور فضائیہ میں بھرتی کی اجازت ملے گی تو یہ لوگ دیش کے دفاع کے بجائے اپنی حرامزدگیوں میں مصروف ہوں گے تو یہ لوگ دیش کا دفاع کیا خاک کریں گے۔ ادھر بھارتی مسلمانوں کی ایک سنجیدہ تنظیم جماعت اسلامی ہند نے اپنے وضاحتی بیان میں ہم جنس پرستی کو جرائم کے صیغہ سے نکالنے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کا یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے جس سے بھارتی معاشرے میں فحاشی اور اس سے جڑی بیماریوں کے پھیلائو میں تیزی آجائے گی۔ وزیر اعظم مودی کے گرو اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے روحانی رہنما بابا رام دیو نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر کھلی منافقت کا رویہ اپنایا ہے اور حالیہ فیصلہ پر خاموشی اختیار کی ہے، حالانکہ کچھ ماہ قبل ایک سماعت پر دعویٰ کیا تھا کہ ہم جنس پرستی ایک قسم کی دماغی بیماری ہے۔واضح رہے کہ بھارتی سابق کانگریسی رہنما اور مہا آتما کہلائے جانے والے موہن چند کرم داس المعروف گاندھی جی بھی ہم جنس پرست تھے، جن کے بارے میں بھارتی اور عالمی محققین نے تسلیم کیا ہے کہ وہ 1900 کی آس پاس کی دہائیوں میں اپنے جنوبی افریقا کے قیام کے دوران جرمن دوست ہرمن کیلان باخ کے ساتھ جوڑا بنا کر رہتے تھے ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More