سرفروش

0

عباس ثاقب
میرے وہاں پہنچنے تک افتخار صاحب دو کرسیوں والی ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ چکے تھے۔ وہاں اس وقت کوئی بھی میز پوری طرح خالی نہیں تھی، چنانچہ میں سیدھا افتخار صاحب کی طرف بڑھا ’’سر جی، آپ کو کسی کا انتظار تو نہیں؟ میرا مطلب ہے میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘ میں نے مہذب لہجے میں پوچھا۔ انہوں نے مسکراکر کہا ’’بیٹھو میاں، ویسے تو تم کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں شان دار ڈنر کے حق دار ہو لیکن فی الحال میری طرف سے بھیل پوری چاٹ کی ٹریٹ پر گزارا کرو!‘‘
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے ایک نظر افتخار صاحب کی گاڑی کی طرف دیکھا تو وہ وہاں نظر نہ آئی۔ انہوں نے میری کیفیت بھانپتے ہوئے کہا ’’اسے میں نے کم ازکم ایک گھنٹے کیلئے ٹرخا دیا ہے۔ ہمیں بخوبی علم ہے ہماری کس کس طرح نگرانی کی جاتی ہے۔ فی الحال نظروں میں آنے کا کوئی خطر ہ نہیں، لہٰذا بے فکر ہوکر بات کرو۔‘‘
میں اطمینان کی گہری سانس بھرتے ہوئے کہا ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ شکار کو اس کے گندے کرتوتوں کے ثبوت دکھانے اور اسے ہمارے اشاروں پر ناچنے پر مجبورکرنے کا کام بھی مجھے ہی کرنا ہے یا…‘‘
انہوں نے میری بات کاٹ دی ’’بھیا یہ تمھارا پروجیکٹ ہے، اب تک سب کچھ تم نے کیا ہے اور کمال انداز میں کیا ہے۔ اب اسے پایۂ تکمیل تک بھی تم ہی پہنچاؤ گے۔ ہمارے تمام لوگ انڈین سیکرٹ ایجنسی کی نظروں میں رہتے ہیں۔ کسی بھی بندے نے معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ چوہے چونک اٹھیں گے۔‘‘
میں نے تفکر بھرے لہجے میں کہا ’’میں سمجھ سکتاہوں۔ آپ لوگ واقعی سانپ کے بل پر بیٹھے اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔‘‘
انہوں نے سنجیدگی سے اثبات میں سرہلایا ’’ہم اب تک اس سانپ کے زہر سے بچنے اور اس کے زہر کا تریاق ڈھونڈنے میں خاصی حد تک کامیاب رہے ہیں لیکن یہ تازہ ترین حربہ واقعی ہلاکت خیز ہے۔ البتہ اب حربے کے توڑ کی کچھ نہ کچھ امید کی جاسکتی ہے۔‘‘
میں نے ایک بار پھر محتاط انداز میں آس پاس کا جائزہ لیا۔ بظاہر کوئی بھی ہمارے اتنے قریب نہیں تھا کہ ہماری باتیں اس کے کانوں میں پڑتیں۔ ڈھابے کے ملازم پہلے ہی گاہکوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے دیوانہ وار ایک سے دوسری میز کی طرف دوڑتے پھررہے تھے۔
مطمئن ہوکر میں نے افتخارصاحب سے کہا ’’میں آپ سے رہنمائی چاہوں گا کہ اس سے کیا کیا پوچھنا ہے اور کون کون سی معلومات چراکر لانے کی فرمائش کرنا ہے۔‘‘
انھوں نے اثبات میں گردن ہلائی ’’ہم لوگ ابتدائی سوالات پر کام کررہے ہیں۔ کل تک وہ ان مخصوص معلومات کے بارے میں تفصیلات بھی ہم تک پہنچ جائیں گی جو تمھیں اس سے حاصل کرنا ہیں۔ مزید پیش رفت مسٹر ایس سے تمھاری بات چیت کے مطابق ہوگی۔‘‘
میں نے مطمئن لہجے میں کہا ’’ ٹھیک ہے۔ میں نے باقاعدگی سے اس سے ملاقات کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ میں ہر روز یا ایک آدھ دن کے وقفے سے اس کے گھر جاؤں گا۔ ابھی یہاں سے سیدھا وہیں کا رخ کروں گا۔ کم ازکم ایک ہفتے تک اس کی بیوی کی واپسی کا کوئی امکان نہیں، تب تک ان شااللہ ہمارا کام بن جائے گا۔‘‘
انہوں سر ہلا کر تائید کی اور پھر اچانک پوچھا ’’کیا اس کے گھر میں ٹیلی فون لگا ہوا ہے؟‘‘
میں نے اپنے ذہن پر زور ڈالا۔ کیا میں نے سچن کے بنگلے پر کہیں ٹیلی فون رکھا دیکھا ہے؟ پھر مجھے یاد آگیا۔ نچلی منزل پر نشست گاہ کے کونے میں مجھے ایک لمبوتری سی میز پر ایک کالے ٹیلے فون کی جھلک نظر آئی تھی ۔ میں نے قدرے جوش کے ساتھ کہا ’’جی، بالکل لگاہوا ہے!‘‘
میری بات سن کر وہ خوش ہوگئے ’’بہت خوب ، تو آج تمھیں اس کے فون کا نمبر معلوم کرنا ہے، ساتھ ہی اس کے سسرال کا فون نمبر بھی ڈھونڈنا ہے۔ اگر اس کا سسر واقعی اتنا مال دار ہے تو یقیناً اس کے گھر پر بھی فون ہوگا۔‘‘
میں نے کہا ’’ان شااللہ یہ کام ہوجائے گا۔ ‘‘
انہوں نے کہا ’’ ٹھیک ہے ۔ مزید کوئی معلومات حاصل ہوسکے تو سونے پہ سہاگا ہوگا۔ کل سے اسلم روزانہ صبح پہلے تمھارے گھر آئے گا۔ تم اپنی پیش رفت کا حال مورس کوڈ میں لکھ کر اس کے حوالے کرسکتے ہو۔‘‘
میں نے پوچھا ’’ان تصویروں کے پرنٹس کب تک مجھے مل جائیں گے؟‘‘
’’ان شااللہ کل شام کو وہ تمھارے پاس ہوں گے۔ ساتھ
ہی وہ ممکنہ سوالات بھی ہوں گے جو تمھیں اس سے پوچھنے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’بالکل ٹھیک، اس سے زیادہ دیر نہیں ہونا چاہیے ۔ میں چاہتا ہوں کہ کل رات ہی اس کی گردن پکڑلوں۔ ہم تاخیر کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ اس کا سسر بستر مرگ پر ہے اور کسی بھی وقت پرلوک سدھار سکتا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی اسے فوراً گجرات جانا پڑے گا اور ہمارا سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔‘‘
افتخار صاحب نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ’’میں ویسے بھی جلد از جلد کوئی فیصلہ کن نتیجہ حاصل کرنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کشتی تقریباً پوری طرح تیار ہے زیادہ سے زیادہ ایک دو مہینے میں اس کا باضابطہ افتتاح کرکے سمندر میں اتاردیا جائے گا۔ اس دوران اس پر درجنوں آگ والے پنچھی بھی سوار کرادیے جائیں گے اور بندوقوں والوں کے علاوہ کوئی اس کے قریب بھی نہیں جاسکے گا۔ اگر تمھاری پوچھ گچھ کے نتیجے میں کوئی طریقہ سمجھ میں آیا تو کشتی پر کسی کارروائی کی کوشش کی جاسکتی ہے۔‘‘
میں نے کہا’’ اللہ جو کرے گا، بہتر ہی ہوگا۔اب مجھے اجازت دیں۔ مجھے اس کے گھر پر اسے پکڑنا ہے۔ حرام زادے کو شیشے میں اتارنے کے لیے شیطان کے پیشاب کا بندوبست بھی کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا’’ یہ کروڑوں کلمہ گو مسلمانوں کی سلامتی کا سوال ہے، اس نیک مقصد کی راہ میں سب کچھ جائز ہے۔‘‘
اس دوران میں بھیل پوری اور کولڈ ڈرنک کا ایک دور چل چکا تھا۔ میں نے ان سے مصافحہ کیا اور اپنی ٹیکسی کی طرف چل پڑا۔ وہاں سے میں سیدھا چرچ گیٹ پر واقع بڑے میاں کبابیے کے طعام خانے پر پہنچا اور وافر مقدار میں مٹن سیخ کباب اور ملائی ٹنگڑی کباب بندھوالئے، ساتھ ہی جودھ پوری نان بھی خریدے اور ٹیکسی تقریباً اڑاتا ہوا سچن کے گھر جا پہنچا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More