وجیہ احمد صدیقی
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی پاکستان آمد بہت اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ ان کی آمد سے قبل امریکی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ مائیک پومپیو پاکستان صرف 5 گھنٹے کیلئے آئے تھے اور انہوں نے پاکستان سے دہشت گردی کی جنگ میں مزید کچھ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جبکہ چینی وزیر خارجہ کا دورہ تین دن پر محیط ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے بھارت کو حساس فوجی ٹیکنالوجی دیئے جانے کے جواب میں چینی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتی ہے اور چینی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں چین کی جانب سے پاکستان کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی دیئے جانے کے سلسلے میں بات چیت ہوئی ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مسائل کو حل کرنے اور خطے میں مثبت تعاون کیلئے پاکستان بھرپور طریقے سے متحرک ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور چینی حکام کے درمیان بھارت کے موجودہ کردار کے حوالے سے بھی بات ہوئی، کیونکہ بھارت کی تمام تر توجہ ہتھیاروں کی خریداری پر ہے، جس سے یہ نظر آتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ عسکری ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دورہ نئی دہلی کے موقع پر بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک اہم فوجی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، جس کے تحت بھارت امریکہ سے اہم دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کر سکے گا، جس میں اسلحے سے لیس ڈرون کی فراہمی بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے اس سال کے شروع میں بھارت کو مسلح ڈرون فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اب بھارت امریکہ سے مسلح ڈرون حاصل کرنے والا پہلا ایسا ملک بن جائے گا جو نیٹو کا رکن نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کے جواب میں پاکستان کو چین کی جانب سے ایسی ہی جدید دفاعی ٹیکنالوجی دیئے جانے کا امکان ہے، جو بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرسکے۔ ذرائع کے بقول بھارت نے پہلے ہی یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ چین نے پاکستان کو ایسا پاور فل ٹریکنگ سسٹم دیا ہے، جو ملٹی وار ہیڈ میزائل (کثیر ہتھیاروں والا میزائل) کی قوت کو بڑھا دے گا اور یہ سسٹم ہر موسم میں کام کرے گا۔ اس طرح میزائل کی اپنے ہدف پر لگنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اپنی صلاحیتوں کو بھی بھارت، چین کے کھاتے میں ڈال کر امریکہ اور اسرائیل سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کررہا ہے۔ وہ روس سے بھی میزائل ڈیفنس سسٹم خرید رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کو مزید وسعت دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کی اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود بھی شامل تھے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وانگ ژی پاکستان کے دوست ہیں، ان کی دفتر خارجہ آمد پر خیرمقدم کرتے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے بھی ملاقات کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ چینی وزیر خارجہ نے نومبر میں وزیراعظم عمران خان کو دورے کی دعوت دی ہے۔ ادھر حکومتی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدوں اور ان کی شرائط پر نظرثانی کیلئے بھی بات چیت کی جائے گی، جس میں کوشش یہ ہوگی کہ پاکستانیوں کیلئے روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے بھی چین کے صدر اور وزیراعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔ سی پیک سے وابستہ چینی شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی، پاکستان چین کے ساتھ مل کر عالمی فورمز پر کام کرتا رہے گا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ سیکورٹی سمیت پاکستان میں دیگر منصوبوں میں تعاون جاری رکھیں گے اور پاکستان کو درپیش مسائل مل کر حل کریں گے۔ چین اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس اقتصادی بحران کا سامنا ہے اس میں چینی وزیر خارجہ کی آمد سے کمی آنے کا امکان ہے، کیونکہ چین کا شمار دنیا کے ان مضبوط ترین ممالک میں ہوتا ہے جو اقتصادی حوالے سے بہت مستحکم ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنی گفتگو میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ زراعت کے شعبے میں چین پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کو رائج کرنا چاہتا ہے اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کا خواہاںہے۔ پاکستان میں پہلے ہی بڑی تعداد میں چین سے پھل اور سبزیاںآرہی ہیں، جنہوں نے مقامی کاشت کاروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اگر یہ چینی سرمایہ کار مقامی کاشت کاروں کے ساتھ پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کرتے ہیں تو ان کے سامنے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاوہ دوسری منڈیاں بھی موجود ہیں۔ چینی وزیر خارجہ کے ساتھ آنے والے چینی کمپنیون کے مالکان نے زراعت، لائیو اسٹاک، ڈیری مصنوعات، فوڈ اور فروٹ پروسیسنگ میں دلچسپی ظاہر کی کہ مقامی صنعت کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کی جائے۔ چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی فارماسیوٹیکل میں بھی نظر آئی۔ چینی سرمایہ کاروں نے بتایا کہ چین کے شیان Sichuan صوبے میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے اور وہ حلال فوڈ ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے چینی کمپنیوں کو حلال فوڈ تیار کرنے کا تجربہ ہے۔
٭٭٭٭٭