راحت اندوروی
ایک اخبار ہوں اوقات میری کیا ہے جناب
مگر اس شہر میں آگ لگانے کو بہت کافی ہوں
……………
تیری ہر بات محبت میں گوارہ کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
منتظر ہوں ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پہ بلالوں گا اشارہ کرکے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کرکے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کرکے
……………
چلتے پھرتے ہوئے مہتاب دکھائیں گے تمہیں
ہم سے ملنا کبھی پنجاب دکھائیں گے تمہیں
چاند ہر چھت پہ ہے سورج ہے ہر اک آنگن میں
نیند سے جاگو تو کچھ خواب دکھائیں گے تمہیں
پوچھتے کیا ہو کہ رومال کے پیچھے کیا ہے
پھر کسی روز یہ سیلاب دکھائیں گے تمہیں
……………
بلاتی ہے مگر جانے کا نئی
یہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئی
میرے بیٹے کسی سے عشق کر
مگر حد سے گزر جانے کا نئی
کشادہ ظرف ہونا چاہئے
چھلک جانے کا بھر جانے کا نئی
ستارے نوچ کر لے جاؤں گا
میں خالی ہاتھ گھر جانے کا نئی
وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے
مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئی
……………
اندر کا زہر چوم لیا کھل کے آگئے
کتنے شریف لوگ تھے کھل کے آگئے
سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بے وقوف
سارے سیاہی موم کے تھے گھل کے آگئے
……………
عشق میں جیت کے آنے کے لئے کافی ہوں
میں اکیلا ہی زمانے کے لئے کافی ہوں
ہر حقیقت کو مری، خواب سمجھنے والے
میں تیری نیند اڑانے کے لئے کافی ہوں
میرے بچو مجھے دل کھول کے تم خرچ کرو
میں اکیلا ہی گنوانے کے لئے کافی ہوں
……………
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ کرو چناؤ ہے کیا (چناؤ۔ الیکشن)
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیری سمت کا تناؤ ہے کیا
……………
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑئی ہے
جو آج صاحب سند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑئی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑئی ہے
٭٭٭٭٭
Next Post