طوس(مانیٹرنگ ڈیسک)وسط ایشیا کے ایک مسلمان ملک تاجکستان میں کئی مساجد کے اماموں عملاً بت پرستی شروع کردی۔ سویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد روس سے آزاد ہونے والے ان وسط ایشائی ممالک میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے اثرات پہلے بھی زیادہ نہیں تھے۔ یہاں کے حکمران اپنے مجسمے لگواتے رہے ہیں تاہم مغربی میڈیا کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مسجد کے اماموں نے خود چندہ کرکے کوئی مجسمہ نصب کرایا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجسمہ بھی اس شخص کا ہے جس کی وجہ سے 70سال تک ملک میں لادینیت مسلط رہی ۔ بی بی سی کے مطابق شہر طوس کی مساجد کے امام اور خطیبوں نے جمع ہونے والی رقم سے بولشیویک انقلاب کے رہنما لینن کے مجسمے کو شہر کے مرکز میں اسی ستون پر دوبارہ کھڑا کر دیا ہے جہاں پر دو سال پہلے اسے گرایا گیا تھا۔ اس مجسمے پر دوبارہ سنہری رنگ کیا گیا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کی جگہ نیا ہاتھ لگایا گیا ہے۔ مقامی ریڈیو آزادی کے مطابق مساجد کی جانب سے ہر ہفتے قریباً 100ڈالر ڈالر چندہ لیا گیا۔جنوبی تاجکستان کا سب سے بڑا مجسمہ 1980میں نصب کیا گیا تھا۔ آزادی کے 11برس بعد بیشتر گرادیئے گئے لیکن یہ محفوط رہا۔2016میں مقامی حکام نے سویت دور کے مجسموں کو تاجک کے قومی ہیروز سے تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو لینن کے اس مجسمے کو اوبشورون گاؤں کے گودام میں پہنچادیا گیا اور مرکزی ستون 2برس تک خالی رہا۔سوشل میڈیا پر تاجک شہریوں سمیت دیگر ممالک کے مسلمانوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر نے لکھا کہ یہ علما نہیں ، بت پرست ہیں بعض دیگر افراد کو کہنا تھا کہ یہ رقم غریبوں کی مدد پر خرچ ہو سکتی تھی۔ کچھ لوگوں نے تاجکستان کی موجودہ صورتحال کا موازنہ سویت دور میں طرز زندگی سے بھی کیا اور کہا کہ ’ اگر لینن نہ ہوتا تو تمام وسطیٰ ایشیائی لوگ افغانستان کے لوگوں کی طرح ان پڑھ ہوتے۔‘