سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کیس میں بھاری فیسوں پر وکلاء سے وضاحت طلب کرلی
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کیس میں پیشی کے عوض بھاری فیسیں وصول کرنے والے وکلاء سے دو ہفتوں میں وضاحت مانگ لی اور کہا ہے کہ ایسے وکلاء اپنی قانونی پوزیشن واضح کریں عدالت نے یہ حکم پیر کے روز جاری کیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غریب پنشنرز کا پیسہ انتہائی لاپروائی اور بے احتیاطی کے ساتھ بانٹا گیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت کے پوچھنے پر وکیل اعتزاز احسن نے بتایا کہ ای او بی آئی سے فیس لینے والے سارے وکیلوں نے جواب جمع کرا دئیے ہیں، میں نے بھی اپنے جواب میں بتایا ہے کہ کتنی فیس لی اور کام بھی کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماشا اللہ، بہت زیادہ فیس ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ پہلے قانون دیکھنا ہوگا کہ کیا آپ فیس لینے کے مجاز تھے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کو ایک لاکھ سے زیادہ کا وکیل کرنے کیلئے وزارت قانون سے اجازت لینا ضروری ہے۔ بابر ستار کو جتنے بھی مقدمات میں وکیل کیا گیا کسی میں بھی ایسی کوئی اجازت نہیں لی گئی۔وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ رولز آف بزنس ہیں، ادارے ان ڈور منیجمنٹ کے تحت بھی وکیل کو فیس دینے کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ وہ رولز کمپنی پر لاگو ہوں گے حکومت کے اداروں کیلئے وزارت قانون سے اجازت قانونی تقاضا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیلوں کی فیس کیلئے ادارے کے بورڈ کی منظوری ضروری تھی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ خود مختار اداروں پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کیا قانون سے روگردانی کی گئی۔
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان آرڈر2018پر فریقین سے تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت میں گلگت بلتستان آرڈر 2009 کو چیلنج کیا گیا تھا جس پر گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ نے آرڈر 2018 معطل کر دیا تھا۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان آرڈر معطل کر دیا ہے اور آرڈر 2018 دوبارہ بحال کیا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں کیا ترمیم کی جائے اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں، پارلیمنٹ سے قانون سازی کرانی ہے یا کابینہ سے مشاورت کر کے آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔