نجم الحسن عارف
پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے شہرت پانے والے پولیس افسر عابد باکسر کے خلاف دس کے دس مقدمات میں تفتیش لٹک کر رہ گئی ہے۔ ایک ماہ قبل عابد باکسر کی جانب سے تفتیشی افسر کی تبدیلی کی درخواست پر اب تک اعلیٰ پولیس حکام فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بہت سارے ممکنہ انکشافات جن کا عابد باکسر نے پاکستان آمد کے موقع پر دعویٰ کیا تھا، سامنے نہیں آسکے۔ ذرائع کے مطابق اگر یہ تفتیش آگے بڑھتی ہے تو سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھ مختلف ادوار میں کام کرنے والے کئی پولیس افسران پر خوفناک الزامات کی صورت میں انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پولیس نے عابد باکسر کے خلاف مقدمات کی تفتیش کے لئے سلیم سندھو نامی افسر کو ذمہ داری دے رکھی ہے۔ لیکن عابد باکسر اس پولیس افسر کو غیر جانبدار تسلیم کرنے کے انکاری ہے۔ اسی لئے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے اس تفتیش کار کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے بعد عابد باکسر نے چار ہفتے پہلے ڈی آئی جی لاہور کو درخواست دی کہ اس کے خلاف الزامات میں غیر جانبدار اور ایمانداری کے اعتبار سے اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسر کو تعینات کیا جائے۔ لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل آگے بڑھنے کے بعد عابد باکسر کی طرف سے سبزہ زار جعلی پولیس مقابلے میں پانچ افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار اصل کرداروں، پنجاب میں پچھلے برسوں میں کئے گئے جعلی پولیس مقابلوں کی حکمت عملی، اس بارے میں فیصلہ سازی اور عملدرآمد سے متعلقہ چھپے احکام اور کرداروں کے بارے میں بھی انکشافات سامنے آ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عابد باکسر طویل عرصہ تک لاہور میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے دہشت کی علامت طور پر معروف رہا۔ لیکن بعد ازاں 2007ء سے 2018ء تک دبئی میں روپوشی کی زندگی گزار کر اب پاکستان واپس آ چکا ہے۔ پاکستان واپسی سے پہلے عابد باکسر کے عزیز و اقارب کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جاتا تھا کہ پچھلی حکومت اس کی جان لے سکتی ہے۔ تاہم اب وہ پاکستان میں ہے اور قتل، فراڈ و دھوکہ دہی سمیت تمام کے تمام دس مقدمات میں اس کی ضمانت ہو چکی ہے۔ ایک سوال پر ذرائع نے بتایا کہ عابد باکسر کے بارے میں پولیس حکام اور اہلکاروں کی رائے منقسم ہے۔ بعض اسے اپنا پیٹی بھائی سمجھتے ہوئے معصوم اور مجبور سمجھتے ہیں۔ جبکہ پولیس کے اعلیٰ حکام کا ایک بڑا طبقہ اس کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتا ہے۔ ان حکام میں وہ افسر بھی شامل ہیں، جنہیں پچھلے ادوار حکومت میں پولیس میں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہنے والی پولیس قیادت کے ساتھ یا ماتحتی میں کام کرنے کا موقعہ ملا اور وہ آج بھی اخلاقی یا پیشہ ورانہ اعتبار سے ان کے احسان مند مانے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں عابد باکسر کا اپنے ماضی میں کئے گئے دعووں کے مطابق ابھی تک انکشافات نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ تصور کیا جارہا ہے کہ پولیس کے ان دونوں طرح کے مقام کی سطح پر یا اس سے بھی اوپر کوئی ایسی انڈر اسٹینڈنگ ہوچکی ہے کہ اس معاملے کو فوری طور پر فوکس میں نہ آنے دیا جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو خدشہ ہے کہ کئی موجودہ پولیس افسران کے علاوہ حالیہ برسوں میں ریٹائر ہونے والے بعض اعلیٰ پولیس افسروں کے بارے میں ایسے انکشافات سامنے آئیں، جس سے پولیس کا مجموعی تاثر مزید خراب ہو جائے۔
ذرائع کے مطابق ایسے انکشافات کے سامنے آنے کی صورت میں صوبے کی سیاسی قیادت سے تعلق رکھنے والے بعض اہم اور ذمہ دار افراد بھی زد میں آ سکتے ہیں۔ اس لئے لاہور پولیس کے لئے تفتیش کو آگے بڑھانے اور معاملات تفتیشی عمل کے بعد عدالت کے سپرد کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر معاملہ سادہ اور سیدھا ہوتا تو ایک ماہ قبل تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی درخواست پر اب تک فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ اس سے معاملے کی سنگینی اور حساسیت ظاہر ہو جاتی ہے۔ جبکہ عابد باکسر کی بھی تمام مقدمات میں ضمانت منظور کرکے ایک طرح سے ریلیف کا احساس دلایا گیا ہے، تاکہ وہ کسی انتہائی رحجان سے باز رہ سکے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایسے ماحول میں جب سانحہ ماڈل کالونی کی سماعت جاری ہے، ایک سابق پولیس افسر کا پولیس کے اس مقدمے میں ماخوذ افسران کے خلاف کوئی خطرناک انکشاف سامنے آگیا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق عابد باکسر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے حوالے سے بھی باخبر ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس لئے عابد باکسر کے خلاف تفتیش کا ایک سطح پر رک جانا کئی حوالوں سے مفید ہے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں عابد باکسر سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا ’’پولیس حکام کی طرف سے افسر سلیم سندھو کو میرے خلاف تفتیشی افسر لگایا گیا تھا۔ لیکن مجھے اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس لئے حسب ضابطہ میں نے ڈی آئی جی لاہور کو تفتیش دیانتدار اور غیر جانبدار افسر کے سپرد کرنے کی درخواست دی ہے۔ اس درخواست کو بھی اب ایک ماہ ہو چکا ہے۔ جب تک تفتیشی افسر تبدیل نہیں کیا جاتا یا میری درخواست کو باقاعدہ طور پر مسترد نہیں کیا جاتا، میں سلیم سندھو کے سامنے تفتیش کے لیے پیش ہونے پابند نہیں ہوں۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ میں تفتیش میں تعاون نہیں کر رہا ہوں، بلکہ تفتیش ہو ہی نہیں رہی ہے۔ میں نے کسی خاص پولیس افسر سے تفتیش کرانے کی درخواست نہیں کی، بلکہ یہ کہا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل اور دیانتدار کسی بھی افسر کو میری تفتیش دے دی جائے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ ٭