امت رپورٹ
وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، صنعت اور ٹیکسٹائل عبدالرزاق دائود نے سی پیک سے متعلق فنانشنل ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو کی وضاحت دے دی ہے۔ تاہم یہ معاملہ ان کے گلے پڑ گیا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چل پڑی ہے کہ وزیراعظم نے اپنے سابق موقف کے برعکس ایک کاروباری شخص کو حکومتی عہدہ کیوں دیا ہے؟
واضح رہے کہ فنانشنل ٹائمز نے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت کے حوالے سے اپنے مضمون میں کہا تھا کہ سابق حکومت نے سی پیک کے منصوبوں میں اپنا ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ لہٰذا پاکستان اس سلسلے میں چین سے ہونے والے معاہدوں میں اپنے کردار پر نظرثانی کرے گا۔ فنانشنل ٹائمز کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ عبدالرزاق
دائود نے سی پیک منصوبے کو ایک برس کے لئے روک دینے کی بات بھی کی۔ تاہم نہ صرف وزارت تجارت نے فنانشنل ٹائمز کے مضمون کو مسترد کر دیا، بلکہ خود عبدالرزاق دائود نے بھی اس رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
عبدالرزاق دائود ڈیسکون کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین ہیں۔ ان کی کمپنی 2008ء میں قائم ہوئی تھی۔ جو انجینئرنگ، پاور سیکٹر، کنسٹرکشن اور کیمیکل کی فیلڈ میں ٹھیکے لیتی ہے۔ مختلف حلقوں بالخصوص سوشل میڈیا میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ کاروباری افراد حکومت میں آنے کے بعد مملکت سے زیادہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ لہٰذا عبدالرزاق دائود کو اہم سرکاری شعبوں کا مشیر مقرر کر کے انہوں نے اپنے ہی موقف کو رد کیا۔ فنانشنل ٹائمز کے مضمون میں عبدالرزاق دائود کے حوالے سے کی گئی بات پر معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے ٹوئٹر میں کہا ہے کہ ’’حکومت کو پتہ لگانا چاہئے کہ کہیں عبدالرزاق دائود کا اپنا کاروبار تو سی پیک کی وجہ سے متاثر نہیں ہو رہا؟‘‘۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں جو مزید بحث چل رہی ہے، اس میں کہا جا رہا ہے کہ ڈیسکون ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جو اب تک سی پیک میں ایک کنٹریکٹ بھی حاصل نہیں کر سکی۔ لہٰذا دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ موصوف پاکستانی قوم کو مہنگی بجلی بیچتے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ سی پیک کے انرجی پارکس کی وجہ سے پاکستان میں بجلی سستی فروخت ہونا شروع ہو جائے گی۔ اور ان کا نجی پاور سیکٹر بری طرح متاثر ہوگا۔ چینی کمپنیوں کی وجہ سے ڈیسکون کے پاس اس وقت کام نہیں۔ ایک اور صارف نے ٹوئٹ کیا کہ عمران خان کی حکومت، وزرا اور مشیروں کا یہی المیہ ہے کہ کوئی وژن نہیں رکھتے۔ بغیر سوچے قدم اٹھاتے ہیں اور پھر انہیں یوٹرن لینا پڑتا ہے۔
سی پیک کے حوالے سے اصل صورت حال کیا ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے ’’امت‘‘ نے معروف تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ سے رابطہ کیا۔ آصف ہارون سی پیک پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس پروجیکٹ کے خلاف غیر ملکی سازشوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ ان سے کی گئی بات چیت سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: فنانشنل ٹائمز کے مضمون میں کیا جانے والا دعویٰ کتنا درست ہے؟
ج: مغربی میڈیا تو ویسے ہی سی پیک کے حوالے سے کسی بھی متنازعہ بات کو زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرتا ہے۔ جہاں تک مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کے بیان کی بات ہے تو انہوں نے کچھ نہ کچھ تو لازمی کہا ہوگا۔ اگر فنانشنل ٹائمز نے حقائق سے ہٹ کر بات شائع کی تو انہیں ہرجانے کا نوٹس بھیجنا چاہئے۔ جہاں تک سی پیک کی بات ہے تو اس منصوبے کی زیادہ تر ذمہ داری فوج نے لی ہے۔ لہٰذا یہ چلتا رہے گا۔ اس کے رکنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ چین نے سی پیک کے لئے جو 46 ارب ڈالر مختص کئے تھے، اس میں سے 18 سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر 62 بلین ڈالر پائپ لائن میں آچکے ہیں۔ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، ایسے میں اتنی بڑی انویسٹمنٹ آئی، جو ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ پچھلی حکومت نے جلد بازی میں معاہدے کر لئے۔ اس کے برعکس کام شروع کرنے میں 8 سے 9 ماہ کی تاخیر ہوئی۔ بصورت دیگر یہ معاہدے ستمبر 2014ء میں سائن ہو جانے تھے۔ لیکن 6 ماہ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔ اس کے بعد معاہدوں پر دستخط کے عمل میں دو تین ماہ اور گزر گئے۔ کوئی بھی ملک یا فرد اتنی بڑی سرمایہ کاری کرتا ہے تو اپنا مفاد بھی لازمی دیکھتا ہے۔ یا پھر برابری کی بنیاد پر شراکت داری کی جائے یا کم از کم 40 اور 60 کے تناسب سے پارٹنر شپ ہو۔ لیکن پاکستان نے سی پیک پروجیکٹ چینی پیسے سے شروع کیا۔ یہ معمولی بات نہیں کہ چین نے پاکستان کو اس قدر سستے قرضے فراہم کئے۔ پھر یہ کہ سارا کا سارا سی پیک پاکستان سے گزر رہا ہے۔ یعنی ساری سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی۔
س: موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ نواز حکومت میں ملکی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لئے گئے۔ یہ پیسہ کہاں گیا؟
ج: یہ قرضے دراصل ہیوی مشینری کو درآمد کرنے کے لئے حاصل کئے گئے تاکہ پاکستان، چین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر سی پیک پروجیکٹ پر کام کرے۔ یہ مشینری سڑکیں اور انرجی پارکس وغیرہ بنانے کے لئے امپورٹ کی گئی۔ لہٰذا یہ قرضے دراصل ایسی سرمایہ کاری ہے، جس کا پھل مستقبل میں پاکستان کو ملنا ہے۔ اب یہ ہمارے اثاثے بن گئے ہیں۔ عوام کو تصویر کے دونوں رخ نہیں دکھائے جاتے۔ صرف ایک رخ دکھایا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ چین کو نواز حکومت پر بھروسہ تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کی طرح لوٹ مار نہیں مچائے گی۔ پھر یہ کہ فوج نے چین کو کمٹمنٹ دی تھی۔ جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک کہا تھا کہ ’’سی پیک ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔ جس پر چین نے کہا سیکورٹی ڈویژن بھی بنائو اور اس کی فنڈنگ وہ کرے گا۔ یہ یقین دہانی دے کر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رزلٹ دکھائے۔ چین مخالف یوغور مسلمانوں کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور اس کی اتحادی اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کو نکال باہر کیا۔ ان اقدامات کے بعد چین نے سی پیک شروع کرنے کا حتمی قدم اٹھایا۔ ورنہ اس سے قبل اس وقت کے صدر آصف زرداری نے اس سلسلے میں چین کے متعدد چکر لگائے، تاہم چینی حکام آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔
س: چینی کمپنیوں کے زیادہ منافع کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے؟
ج: چین سی پیک کے لئے اپنے سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ نہیں کر رہا، بلکہ چین کی زیادہ تر پرائیویٹ کمپنیوں نے پیسہ لگایا ہے۔ جب کمپنیاں پیسہ لگاتی ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی بات نہیں مانے جائے گی تو کام آگے کیسے بڑھے گا۔ اس تناظر میں ضرور سابق حکومت سے جلد بازیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ دراصل ہم فوری طور پر اتنے بڑے پروجیکٹ کے لئے تیار نہیں تھے۔ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی اور مشینری نہیں تھی کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کو سنبھال لیں اور سمجھ لیں۔ تاہم سابق حکومت کے پلاننگ منسٹر احسن اقبال نے اس سلسلے میں بڑی حد تک اچھا کام کیا۔ اب نئی حکومت کو یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانی ہو گی۔
س: کیا یہ امکانات ہیں کہ چین اور سابق حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر موجودہ حکومت نظر ثانی کرے؟
ج: چونکہ پاکستان پر قرضے بہت زیادہ چڑھ گئے ہیں۔ اور یہ قرضے اب واپس بھی کرنے ہیں تو اس تناظر میں یہ سوچ آئی ہے کہ یہ سارے معاہدے جو چین سے کئے گئے ہیں، نئی حکومت اسے اپنے طریقے سے دیکھے۔ جب ایک نئی حکومت آتی ہے تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ گزشتہ حکومت سے جتنے بھی معاہدے کئے گئے، اس کی اسٹڈی کرے اور دیکھے کہ معاہدوں میں جو شراط و ضوابط طے کئے گئے تھے وہ درست ہیں یا اس میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پاکستان بزنس مینوں کے مفادات تو متاثر نہیں ہو رہے، اس سے پاکستانی صنعت کو تو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور یہ کہ چین سے ہم جو منافع وصول کر رہے ہیں، وہ مناسب ہے یا نہیں۔ لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سی پیک کے تحت تمام منصوبوں پر نظر ثانی کر کے دوبارہ دستخط کئے جائیں گے یا پھر خدانخواستہ یہ پروجیکٹ روک دیا جائے گا۔ سی پیک کی ذمہ داری فوج نے لی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ایٹمی اثاثے فوج کی ذمہ داری ہیں۔ اس وقت سی پیک فوج کے لئے اس سے بھی بڑا اسٹرٹیجک اثاثہ ہے۔ کیونکہ سی پیک پروجیکٹ پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنا دے گا۔ ملک کی معیشت مضبوط ہو گی تو پھر آپ نیوکلیئر پروگرام بھی چلا سکیں گے۔ فوج بھی مزید مضبوط ہو گی۔ سیاسی استحکام بھی آئے گا۔
س: سی پیک منصوبوں کی رفتار سست ہونے سے متعلق بھی بعض خبریں چلی تھیں۔ اس میں کہاں تک حقیقت ہے؟
ج: جب نواز حکومت ڈانوا ڈول ہوئی اور ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی تھی تو چین نے سی پیک سے متعلق فنڈنگ اور قرضے روک دیئے تھے۔ رواں برس کے اوائل میں خود چینی سفیر نے بتایا تھا کہ فی الوقت ہم نے معاملہ روکا ہوا ہے۔ کچھ وقت کے لئے وہ رکاوٹ ضرور آئی تھی۔ لیکن جو پیسہ آ گیا تھا اس کے تحت منصوبوں پر کام جاری رہا۔ رکاوٹ کا مقصد یہ تھا کہ سی پیک کے لئے پائپ لائن میں رکھے پیسے نہیں آ رہے تھے، ورنہ اس سرمایہ کاری کو اب تک30 بلین ڈالر تک پہنچ جانا چاہئے تھا۔ نئی حکومت آنے کے بعد گاڑی پھر چل نکلی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ اسی سلسلے میں تھا۔ سی پیک کا ٹوٹل پروجیکٹ 2030ء تک کا ہے۔ اس وقت تک تمام ریلوے لائنیں ڈال دی جائیں گی، چاروں صوبوں میں انرجی پارکس بن چکے ہوں گے۔ گوادر پورٹ پوری طرح آپریشنل ہو جائے گا۔