امت رپورٹ
سندھ ہائی کورٹ نے 11 سال پہلے پیش آنے والے سانحہ 12 مئی کی ازسرنو تحقیقات کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جے آئی ٹی اور جوڈیشنل کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے سانحہ 12 مئی کے متاثرین کو حصول انصاف کی امید پیدا ہوئی ہے۔ متاثرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ شہیدوں کا خون رنگ لایا ہے۔ سانحہ 12 میں ملوث متحدہ دہشت گردوں کے خلاف قانونی جنگ لڑنے والے اقبال کاظمی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ متاثرین سے اپیل کرتے ہیں کہ جوڈیشنل کمیشن کے سامنے ضرور پیش ہوں اور اس سانحہ میں ملوث کرداروں کو تختہ دار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
عدالت نے سانحے کی ازسرنو تحقیقات کے دوران کراچی آپریشن میں پکڑے گئے ملوث دہشت گردوں سے دوبارہ پوچھ گچھ اور شہر کے مختلف تھانوں میں ان کے خلاف درج 65 مقدمات جو A کلاس ہوچکے ہیں، ان کو ری اوپن کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ادھر متحدہ کے مختلف دھڑوں میں شامل رہنمائوں اور دہشت گردوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ واضح رہے کہ 12 مئی 2018ء کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو 3 ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا۔ درخواست گزار اقبال کاظمی نے تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی جس پر سندھ ہائی کورٹ نے منگل کو سانحہ 12 مئی 2007ء کی ازسرنو تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ سندھ حکومت کو تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی اور جوڈیشنل کمیشن بنانے کابھی حکم دیا۔ عدالت نے سانحہ 12 مئی کے حوالے سے شہر کے مختلف تھانوں میں درج 65 مقدمات دوبارہ کھولنے کا بھی حکم دیا جو مختلف اوقات میں عدالتوں سے A کلاس کے تحت ختم کئے گئے تھے۔
’’امت‘‘ سے بات چیت کے دوران درخواست گزار اقبال کاظمی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ 11 سال بعد جوڈیشنل کمیشن بنانے کا حکم مل گیا۔ اس دوران ان کو متحدہ کے عروج کے دوران بہت کچھ بھگتنا پڑا۔ تاہم اب ان کو انصاف ملنے کی امید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاص بات یہ ہے کہ شہر بھر میں سانحہ 12 مئی کے حوالے سے 65 مقدمات درج ہوئے اور عدالتوں سے A کلاس ہوتے رہے۔ اس روز کی مختلف علاقوں کی فوٹیج بھی کورٹ میں موجود ہے۔ اس سی سی ڈی فوٹیج پر مزید ملزمان پکڑے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی آپریشن کے دوران پکڑے گئے کئی متحدہ دہشت گردوں نے جے آئی ٹی میں اعتراف کیا کہ سانحہ 12 مئی میں ملوث تھے۔ تاہم اکثریت کو صرف غیر قانونی اسلحہ رکھنے یا بارودی مواد رکھنے پر انسداد دہشت گردی ایکٹ میں فٹ کیا گیا۔ جے آئی ٹی پہلے بھی بنی جس میں میئر کراچی سمیت دیگر متحدہ رہنمائوں کے نام آئے۔ تاہم کہیں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ سارے واقعے کا حکم الطاف حسین نے دیا تھا۔ گرفتار ٹارگٹ کلرز ماسٹر مائنڈ کے نام لینے سے گریز کرتے رہے۔ اقبال کاظمی کا کہنا تھا کہ سانحہ 12 مئی میں 50 سے زائد بے گناہ مارے گئے اور 70 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ’’امت‘‘ کے توسط سے وہ متاثرین سے درخواست کریں گے کہ جوڈیشنل کمیشن میں آکر ضرور بیان ریکارڈ کرائیں ورنہ غدار وطن الطاف حسین سمیت دیگر بڑے مگرمچھ دوبارہ بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روزنامہ امت نے گیارہ سال تک اس سانحے کو مسلسل اشاعت میں رکھ کر متاثرین کو حوصلہ دیا۔
دوسری جانب کراچی میں سانحہ 12 کے دوران بے گناہ مارے جانے والے افراد کے ورثا پرامید ہوگئے ہیں کہ اب ضرور انصاف ملے گا۔ شہید ہونے والے جاوید خان کے بھائی اعجاز خان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ بار بار اپیل کرتے رہے تھے کہ اس کیس کو فوجی عدالت میں بھیجا جائے۔ اب عدالت کا فیصلہ سن کر ان کے والدین اور انہیں امید ہو چکی ہے کہ ملوث دہشت گرد کیفرکردار تک پہنچیں گے۔ سانحہ میں شہید حیدر علی کے والد مرزا خان کا کہنا تھا کہ وہ اب امید ہو چلی ہے کہ قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکتا دیکھ لیں۔ ورنہ وہ اپنا کیس خدا کی عدالت میں بھیج چکے تھے کہ قاتل شاید ان کی زندگی میں کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکیں۔ عبدالواحد کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی برکت اللہ بے گناہ مارا گیا۔ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مانگی گئی دعائیں قبول ہوئی ہیں اور کیس دوبارہ ری اوپن ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں کو ہماری بددعائیں چین سے نہیں بیٹھنے دیں گی۔ عدالت کے شکر گزار ہیں اور اس کیس کو ری اوپن کرانے والوں کو دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ سانحہ کے زخمی گل شیر خان بھی انصاف ملنے کی امید رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب یقیناً انصاف ملے گا۔ مقتول امین خٹک اور منتظر خٹک کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ دیر سے سہی، تاہم انصاف ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی دعائیں رنگ لائی ہیں۔
واضح رہے کہ اب کراچی کے تھانوں میں درج 65 مقدمات دوبارہ کھولے جائیں گے۔ اسی طرح جیلوں میں موجود سانحہ بارہ مئی میں ملوث دہشت گردوں سے جہاں تفتیش ہوگی، وہیں ضمانتوں پر رہا یا دیگر دھڑوں میں چلے جانے والوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔ ادھر سانحہ 12 مئی کی ازسرنو تحقیقات شروع ہونے کی اطلاع لندن سمیت بیرون ملک میں موجود متحدہ دہشت گردوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسی طرح متحدہ پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر پارٹیوں میں جانے والے سانحہ 12 مئی میں ملوث متحدہ رہنمائوں میں بے چینی پھیل گئی ہے۔