سرفروش

0

عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
٭٭٭٭٭
ریوالور پر نظر پڑتے ہی سچن بھنڈاری کا چہرہ سفید پڑگیا۔ مجھے لگا کہ خوف کی شدت سے اس کی گھگھی بندھ جائے گی۔ اس نے تھوک نگل کر خشک حلق تر کیا اور کہا۔ ’’میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں، پرنتو کرپیا (براہ کرم) یہ بندوق کی نال میری طرف سے ہٹادو‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’فکر نہ کرو، گولی اس وقت تک نہیں چلے گی، جب تک خود اپنی مرتیو کو نمنترت (موت کو دعوت) نہیں کرو گے‘‘۔
میں نے گن کا رخ اس کی طرف سے ہٹا لیا۔ وہ میرے بولنے کا منتظر تھا۔ میں نے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’اپنی جان چھڑانا تمہارے لیے بہت آسان ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آئی این ایس وکرانت سے متعلق تمام اخراجات کے حساب کتاب اور اس سے متعلق تمام ریکارڈ کی رکھوالی تمہاری ڈیوٹی ہے۔ تمہیں اس ریکارڈ میں سے کچھ وشیشٹ جان کاری (اہم معلومات) لاکر مجھے دینی ہے۔ بس اتنی سی بات ہے!‘‘۔
میری بات سن کر شاید اسے شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ وہ کئی لمحوں تک خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے منتشر لہجے میں پوچھا۔ ’’تت… تم…‘‘۔ میں نے اسے بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ’’ہاں، میں… تم مجھے ٹھیک پہچانے ہو…۔ مگر گڑبڑ یہ ہے کہ اب تمہارے پاس میرے اشارے پر چلنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔
اچانک اس نے پُرعزم لہجے میں کہا۔ ’’نہیں، میں کتنا بھی بڑا پاپی ہوں، پرنتو میں دیش دروہی نہیں بنوں گا۔ تم مجھے گولی مار دو!‘‘۔
میں پہلے سے جانتا تھا کہ اس مرحلے پر یقیناً اس کی نام نہاد حب الوطنی جاگے گی، لہٰذا اشتعال میں آنے کے بجائے میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’مجھے تمہارا یہ ڈائیلاگ اچھا لگا۔ لیکن کیا تم مجھے اتنا بڑا مورکھ سمجھتے ہو کہ تمہیں گولی مار کر اپنی ساری محنت مٹی میں ملا دوں گا؟۔ نہیں مہاشے! تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ چپ چاپ میرے اشارے پر چلتے رہو یا ذلیل و خوار ہوکر باقی زندگی کاٹو‘‘۔
لیکن وہ اتنی آسانی سے میرے پھندے میں پھنسنے والا نہیں تھا۔ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ’’مجھے پتا ہے میرا محکمہ میرا کورٹ مارشل کرے گا۔ ہو سکتا ہے مجھے ڈسمس کر دیا جائے۔ نوکری چھوٹتی ہے تو چھوٹ جائے، میں اپنے دیش سے غداری نہیں کروں گا‘‘۔
میں نے بغور اس کی طرف دیکھا اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ ’’سوری مسٹر سچن۔ میں تمہیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میں نے تمہاری عیاشی کا ثبوت تمام تصویروں کا ایک اور پیکٹ بھی تیار کر کے رکھا ہوا ہے۔ ان تصویروں میں تم شریمتی کامنی کے ساتھ طرح طرح سے پوجا کرتے ہوئے صاف دیکھے جا سکتے ہو۔ اگر تم نے میرے مطالبات پورے نہ کیے تو یہ پیکٹ احمد آباد میں مرن بستر پر پڑے تمہارے سسر جی کے آخری درشن کے لیے گئی تمہاری پتنی کے پاس پہنچ جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے بھگوان سمان پتی کو اپنے ہی بستر پر ایک کال گرل کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے دیکھ کر وہ شریمتی خوشی سے نہال ہو جائے گی‘‘۔
اس کے چہرے پر یک لخت زردی کھنڈ گئی۔ ترپ کا پتا کارگر ہوتے دیکھ کر میں نے چال آگے بڑھائی۔ ’’مجھے پتا ہے تمہیں نوکری چھوٹنے کی پروا نہیں، کیونکہ شری پاٹھک لال سونی کسی بھی وقت پرلوک سدھارنے والے ہیں۔ اس کے بعد ان کی کروڑوں کی جائیداد اور کاروبار تمہارے ہتھے چڑھ جائے گا۔ میں نے ٹھیک کہا ناں؟‘‘۔
یہ سنتے ہی حیرت اور خوف سے اس کی آنکھیں حلقوں سے ابلنے کے قریب ہوگئیں۔ اس نے بمشکل خود کوسنبھالا۔ ’’تم یہ سب کیسے جانتے ہو؟‘‘۔
میں نے اس کی حالت کا لطف لیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے تو یہ بھی پتا ہے کہ تمہاری پتنی پہلے بھی کئی بار اس طرح کی حرکتوں پر تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑ چکی ہے اور اس نے تمہیں آخری وارننگ دے رکھی ہے‘‘۔
اسے یہ سن کر ایک بار پھر اعصابی جھٹکا لگا۔ کئی لمحوں بعد اس نے سٹپٹائے لہجے میں کہا۔ ’’تم یہ سب کیسے جانتے ہو؟‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میں بہت مہان قسم کا رشی بھی ہوں۔ میں ذرا سا دھیان لگاکر دیوار کے پیچھے چھپے بھید اور لوگوں کے من کی بات جان لیتا ہوں۔ ورنہ مجھے تمہارے بارے میں یہ سب راز کی باتیں کیسے معلوم ہو گئیں؟‘‘۔
اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ میں لمحہ بھر میں سمجھ گیا کہ ساری کہانی اب اس کی عقل میں آگئی ہے۔ حالانکہ وہ اوسط عقل کا مالک بھی ہوتا تو کامنی کے ساتھ اپنی خلوت کی تصویریں دیکھتے ہی پورا معاملہ سمجھ چکا ہوتا۔
میں نے اس کے چہرے پر ناراضی، بلکہ طیش کے آثار ابھرتے دیکھے۔ ’’تم نے میرے گھر میں گھس کر میری پتنی کے ساتھ میری باتوں سے یہ سب جان کاری حاصل کی ہے۔ اور یہ فوٹو…‘‘۔
میں نے اطمینان سے ہاں میں سر ہلایا۔ ’’ظاہر ہے، یہ سندر چتر (فن پارے) بھی تمہارے بیڈ روم میں چھپ کر بنائے ہیں۔ غصے کیوں ہوتے ہو، میری کلا کی سراہنا (پذیرائی) کرو۔ آج کل کون کسی کے لیے اتنا کشٹ اٹھاتا ہے۔ تمہیں جو مفت میں عیاشی کرائی، اس کا حساب تو میں نے ابھی تک مانگا ہی نہیں‘‘۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More