ایف آئی ایف کے بیشتر ادارے حکومتی تحویل میں ہیں

0

محمد زبیر خان
سپریم کورٹ کی جانب سے فلاحی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ملنے کے بعد فلاح انسانیت فائونڈیشن بلوچستان، تھرپارکر، شمالی علاقہ جات اور چترال سمیت دشوار گزار علاقوں میں فی الفور فلاحی کاموں کا دوبارہ آغاز کر دے گی۔ جبکہ حکومتی تحویل میں لئے گئے اداروں کی واپسی کے لئے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے مطابق بلوچستان کے انتہائی مسائل والے علاقوں میں اس نے فلاحی کاموں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف قابو پانے میں مدد دی تھی۔ کئی فراری نوجوانوں اور خاندانوں سے امداد کے وعدے کر کے ان سے بندوقیں رکھوائی تھیں۔ حکومتی پابندی سے تھرپارکر میں پانی اور سولر پاور کے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچا، مگر اب دوبارہ رفاہ عامہ کی سرگرمیاں شروع کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے فلاح انسانیت فائونڈیشن (ایف آئی ایف) پر جب پابندی لگائی گئی اور اس کے خالصتاً فلاحی و رفاہی منصوبوں کو بند کر دیا گیا۔ اس کے بیشتر اداروں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا تو اس وقت فلاح انسانیت فائونڈیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں حکومتی فیصلے کے خلاف اسٹے آرڈر کے لئے درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست پر حکومت کا موقف سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے حق میں دیا۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی حکومت اور وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں اپیل کی اور گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا اور فیصلہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے حق میں دے دیا۔ ذرائع کے مطابق اب فلاح انسانیت فائونڈیشن اپنی تمام سرگرمیاں دوبارہ بحال کرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’حکومت نے بیرونی آقاؤں کے کہنے پر جب فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی عائد کی تو اپنے فیصلے کے بعد اس نے پورے ملک میں ایف آئی ایف کے دو ہزار سے زائد اسکول و مدارس، بارہ ہزار اسپتال، ڈسپنسریوں سمیت ایمبولینس سروس اور دیگر ادارے اپنی تحویل میں لے لئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ان اداروں کو حکومت چلائے گی۔ لیکن حکومت ان اداروں کو چلانے میں ناکام رہی۔ جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ بے روزگار ہوئے۔ غریب عوام جو ان اداروں سے مستفید ہو رہے تھے، کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے بھی حکومت کو روک دیا ہے کہ وہ ہمارے فلاحی کاموں میں مداخلت نہ کرے تو اس کے بعد ہم اپنے اداروں کو دوبارہ اپنی تحویل میں لینے کے لئے عدالت میں رٹ پیٹیشن دائر کریں گے۔ عدالت سے درخواست کی جائے گی کہ ہمارے ادارے حکومت سے واگزار کرا کے دیئے جائیں اور امید ہے کہ جلد ہی ہمارے حق میں فیصلہ ہوگا۔ مگر اس کے ساتھ سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ ہم نے بلوچستان اور تھرپارکر جیسے علاقوں میں دوبارہ سے اپنے فلاحی کاموں کا آغاز کرنا ہے‘‘۔ ایک سوال پر حافظ عبدالرئوف کا کہنا تھا کہ ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن 2007ء سے بلوچستان میں مصروف عمل ہے۔ پوری دنیا ہمارے کام کی متعرف ہے۔ ہم نے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں بھی فلاحی کام کئے ہیں اور جس کے نتیجے میں فراری کمانڈروں اور ان کے خاندانوں نے پاکستان کا پرچم تھاما ہے۔ فلاحی سرگرمیوں کے سبب ان لوگوں نے بغاوت ختم کی اور ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جب یہ بغاوت ختم کر رہے تھے تو ہم نے ان سے وعدے کئے تھے کہ ہم ان کے اور ان کے خاندانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ خوراک، تعلیم اور صحت فراہم کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم نے ایسے عملی اقدامات کئے جن کے نتیجے میں مقامی لوگوں کا اعتماد بحال ہوا اور فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ان علاقوں میں اسپتال قائم کئے۔ پانی کے کنویں بنائے۔ ان کے بچوں کو کراچی اور پنجاب کے اسکولوں میں داخل کرایا۔ مگر جب حکومت کی جانب سے پابندی لگی تو یہ سارے آپریشن متاثر ہوئے اور اس سے یقینی طور پر مقامی لوگوں کا ہم پر اعتماد بھی متنزل ہوا ہے۔ مگر اب ایک بار پھر ہم اپنے اعتماد کو بحا کرانے کے لئے ان لوگوں میں جائیں گے اور امید ہے کہ وہ لوگ ہماری مجبوریوں کو سمجھیں گے اور ہم دوبارہ بلوچستان کے انتہائی پسماندہ اور شورش والے علاقوں میں خدمت کر کے پاکستان کا پرچم بلند کرسکیں گے‘‘۔ حافظ عبدالرئوف نے مزید کہا کہ ’’دوسرا بڑا چیلنج تھر پارکر میں موجود آپریشن کو نقصان پہنچنا ہے۔ تھرپارکر میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے دو ہزار کنویں کھودے تھے۔ سات سو سولر پاور پلانٹ لگائے تھے۔ اس کے علاوہ اسکول اور اسپتال قائم کئے تھے۔ تھرپاکر میں ہریالی کا منصوبہ تھا جو حکومتی پابندی کے بعد متاثر ہوا ہے۔ اب ہم دوبارہ تھرپارکر بھی جائیںگے اور پھر سے اپنے منصوبوں کو شروع کریں گے‘‘۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’صرف اس بات سے اندازہ کرلیں کہ سال 2017ء میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے رمضان میں پچاس ہزار سے زائد لوگوں میں راشن تقسیم کیا تھا۔ مگر سال 2018ء کے رمضان میں پابندی کے سبب سے یہ نہیں کر سکے۔ اب پورے ملک میں ہمارے منصوبے انشاء اللہ دوبارہ شروع ہوں گے۔ ایمبولینس سروس، ڈسپنسریاں، اسپتال، تعلیمی مراکز کے منصوبے چترال اور شمالی علاقہ جات سمیت ایسے علاقوں میں تھے جہاں حکومتی مشینری نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن وہاں ہم پہنچے اور خدمت کی۔ یقینی طور پر پابندی سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن اب ہم دوبارہ بلوچستان اور تھرپارکر میں کام شروع کر رہے ہیں۔ عدالت سے جب ہمیں ہمارے ادارے واپس ملیں گے تو ان اداروں کو بھی فعال کر دیںگے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More