عمران خان
ایف آئی اے نے فارما مافیا کیخلاف گھٹنے ٹیک دیئے۔ خام مال کی اسمگلنگ میں ملوث 100 ادویات ساز کمپنیوں کے خلاف جاری تحقیقات سے ان کے نام نکال دیئے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کراچی کی انکوائری میں سامنے آنے والے اس بدترین اسکینڈل پر آنے والے دبائو کو ادارے کے افسران برداشت نہیں کر پائے اور مجموعی طور پر انکوائری میں نامزد 106 ادویات ساز کمپنیوں میں سے صرف 6 کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس کی وجہ سے غیر قانونی ادویات کے دھندے میں ملوث فارما مافیا اور ان کو خام مال سپلائی کرنے والا نیٹ ورک قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔ اس وقت بھی کئی ادویات ساز کمپنیاں اپنے لئے خام مال منگوا کر اسے اوپن مارکیٹ میں غیر قانونی کمپنیوں کو فروخت کر رہی ہیں۔ ادویات ساز کمپنیوں کا چین، بھارت اور یورپی ممالک سے ادویات میں استعمال ہونے والا خام مال اور کیمیکل ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم سے کلیئر ہوکر آتا ہے، جس کی کلیئرنس کیلئے دیگر دستاویزات کے ساتھ ہی وفاقی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے کراچی کے ڈائریکٹو ریٹ میں موجود فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز ’’ایف آئی ڈیز‘‘ کی منظوری بھی ضروری ہوتی ہے۔ ذرائع کے بقول خام مال کی غیر قانونی سپلائی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف تحقیقات دب جانے سے انہیں منظوری دینے والے ایف آئی ڈیز کا وہ نیٹ ورک بھی نقاب نہ ہوسکا، جنہیں سالانہ کروڑوں روپے کی بھاری رشوت ملتی ہے اور اس وقت یہ فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کراچی میں شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں، جن کی پوش علاقوں میں رہائش ہے اور ان کے پاس لگژری گاڑیاں موجود ہیں۔ دو خواتین اور 4 مرد ایف آئی ڈیز پر مشتمل نیٹ ورک گزشتہ کئی برسوں سے اس مافیا کی سرپرستی میں مصروف ہے، جن کے ایف آئی اے کے بعض افسران سے بھی مضبوط تعلقات ہیں۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کرائم اینڈ اینٹی کرپشن سرکل کراچی میں گزشتہ تین برس کے دوران غیر رجسٹرڈ، ناقص اور مضر صحت ادویات بنانے والی کمپنیوں اور سپلائی کرنے والے ڈیلرز کے خلاف دو درجن سے زائد مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بعض مقدمات کیلئے ہونے والی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں لائسنس یافتہ بعض بڑی ادویات ساز کمپنیوں کیلئے بیرون ملک سے آنے والا خام مال غیر قانونی فیکٹریوں کو سپلائی ہو رہا ہے، جس کو استعمال کرکے ناقص اور مضر صحت جعلی ادویات بنائی جاتی ہیں۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ زیادہ تر لائسنس یافتہ ادویات ساز کمپنیاں اپنے لئے خام مال اور کیمیکل چین اور بھارت سے منگواتی ہیں۔ جو کمپنیاں معیاری ادویات بناتی ہیں وہ اپنا خام مال یورپی ممالک سے منگواتی ہیں۔ یہ خام مال بندرگاہوں سے ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ ایسٹ، ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے کسٹم افسران کلیئر کرتے ہیں، تاہم اس کیلئے فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کی منظوری بھی ضروری ہوتی ہے، جو کہ ادویات ساز کمپنیوں کے نمائندے فیڈرل ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے ایس ایم سی ایچ سوسائٹی میں قائم فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کے دفتر سے حاصل کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض کیمیکل ایسے ہوتے ہیں جوکہ نشہ آور ادویات میں استعمال ہوتے ہیں اور ان کا خام مال ادویات ساز کمپنیاں اپنے مقررہ کوٹے کے حساب سے ہی منگوا سکتی ہیں اور یہ ادویات طے شدہ مقدار میں ہی مقامی مارکیٹ میں سپلائی کرنا ہوتی ہے۔ تاہم کئی لائسنس یافتہ کمپنیاں اپنے لئے منگوایا گیا خام مال اور کیمیکل ایم اے جناح روڈ پر قائم پاکستان کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ کی کچھی گلی میں موجود ڈیلروں اور سپلائرز کو فروخت کردیتی ہیں اور یہی کیمیکل غیر قانونی اور جعلی ادویات بنانے والوں کو فراہم کردیئے جاتے ہیں۔ اس پورے دھندے میں فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ ایک جانب ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے کہ وہ لائسنس یافتہ کمپنیوں کی جانب سے منگوائے گئے خام مال کی مقدار اور کھپت کا جائزہ لے کر اس کی کلیئرنس کی منظوری دیں اور دوسری جانب ان کا یہ بھی کردار ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ خام مال اور کیمیکل منگوانے والی کمپنیوں نے اس خام مال کو اپنے ہی پلانٹس میں ادویات کی تیاری میں استعمال کیا ہے یا نہیں۔ تاہم کئی برسوں سے ان کی جانب سے اس دھندے میں ملوث کمپنیوں کے مالکان کو گرفتار نہیں کروایا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کروائے گئے ہیں۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں ایسی کمپنیوں کے خلاف ابتدائی اطلاعات پر مشتمل انکوائری کا آغاز رواں برس کیا گیا جس میں اس دھندے میں ملوث 106 لائسنس یافتہ کمپنیوں کے نام اور کوائف شامل تھے۔ یہ انکوائری ایف آئی اے کے انسپکٹر راحت کے سپرد کی گئی، کیونکہ یہی افسر ایف آئی اے کرائم ایند اینٹی کرپشن سرکل میں اپنی تعیناتی کے دوران جعلی اور غیر قانونی ادویات کے حوالے سے کئی کیس کرچکے تھے، تاہم یہ انکوائری شروع ہونے کے بعد بااثر مافیا حرکت میں آگئی اور کئی ہفتوں تک اس انکوائری کو دبانے کیلئے مختلف سفارشیں کی جاتی رہیں، جس پر خاموشی سے اس انکوائری میں سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کارپوریٹ سرکل اسلام شیخ کے ہوتے ہوئے کمپنیوں کے نام نکلتے رہے اور آخر کار خام مال کے حوالے سے ہونے والی اس انکوائری پر درج ہونے والے مقدمہ میں صرف 6 ادویات ساز کمپنیوں کو ہی نامزد کیا گیا۔
اس ضمن میں جب انکوائری کے آفیسر انسپکٹر راحت سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ڈرگ کے حوالے سے قانون بہت پرانا ہوچکا ہے اور اس میں اب ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت جس انداز میں جرم ہو رہے ہیں اس کو یہ پرانا ایکٹ پورے طریقے سے قابو نہیں کر پا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کا تعاون غیر قانونی اور جعلی ادویات مافیا کے خلاف تحقیقات میں بہت ضروری ہوتا ہے۔ تاہم ایف آئی اے تحقیقات میں پیش رفت ہونے کے بعد جب انکوائری کو مقدمہ میں تبدیل کیا جاتا ہے تو بہت سے الزامات ثابت نہ ہونے پر نام کم یا تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭