امت رپورٹ
کراچی میں یوم عاشور پر تعزیے نکالنے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے۔ کئی پشتوں سے اپنے بزرگوں کی جانب سے مانگی گئی منت کو پورا کرنے کیلئے اب چند خاندان ہی تعزیے بنارہے ہیں۔ جبکہ گزشتہ برسوں میں نو اور دس محرم کو دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر سخت ترین سیکورٹی اقدامات بھی تعزیوں کے جلوس میں کمی کا سبب بنے ہیں۔ جبکہ تعزیہ بنانے والوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ دس برسوں میں لاگت چار گنا بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے ہجرت کرکے کراچی اور حیدرآباد آنے والے بہت سے خاندان یہاں بھی ذوق و شوق سے تعزیے بناتے تھے۔ محرم کا چاند نظر آنے کے بعد گلیوں میں قناعتیں لگا کر تعزیہ بنانے کا کام شروع کردیا جاتا تھا۔ اس دوران حلیم کی دیگیں چڑھائی جاتی تھیں اور ٹیپ ریکارڈ پر مرثیے لگائے جاتے تھے۔ یکم محرم سے 9 محرم کی رات تک گلیوں میں رت جگا ہوتا تھا۔ لیکن اب وہ صورتحال نہیں ہے۔ شہر میں تعزیے بنانے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔
صدر میں واقع اکبر روڈ کی ایک گلی میں گزشتہ 70 سال سے مائی تاجی کا تعزیہ تیار کیا جاتا ہے۔ مائی تاجی کی بیٹی مائی محمودہ کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ تعزیہ بمبئی سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی والدہ مائی تاجی ہجرت کرکے کوٹری آگئی تھیں اور وہاں سے تعزیہ نکالتی تھیں۔ پھر کراچی شفٹ ہونے کے بعد یہاں سے قدیم روایت کو برقرار رکھا۔ مائی محمودہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں نکلنے والے تعزیوں کی تعداد نصف بھی نہیں رہی ہے۔ نئی نسل نے اپنے بزرگوں کی روایت کو چھوڑ دیا ہے۔ چند خاندان ہیں جو اب بھی اس روایت کو پکڑے ہوئے ہیں اور اپنے بزرگوں کی منت کو پوری کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب ان کی والدہ تعزیہ نکالتی تھیں تو سونا چاندی اتنا مہنگا نہیں تھا اور تعزیہ پر سونے اور چاندی کے پترے لگائے جاتے تھے۔ والدہ اپنی ایک منت کے تحت انڈیا سے تعزیہ نکالتی آرہی تھیں اور اب میں اس کام کو سنبھالے ہوئے ہوں۔ اب تعزیے پر آرائش کیلئے تھوڑی تعداد میں چاندی کے پترے لگائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر سجاوٹ کیلئے چائنا کی رنگ برنگی لائٹیں لگائی جاتی ہیں۔ مائی محمودہ نے بتایا کہ وہ پورے سال رقم جمع کرتی ہیں اور تعزیہ کی تیاری پر 30 سے 40 ہزار روپے کا خرچہ کرتی ہیں۔ وہ اپنی والدہ کی طرح ٹھیلے پر تعزیہ رکھ کر آگے آگے چلتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آج کل ڈھول تاشے بجانے والے بھی مفت نہیں ملتے، پانچ سو روپے دیہاڑی پر آتے ہیں۔ ایک لڑکا ڈھول بجاتے ہوئے تعزیے کے آگے چلتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ آج کل سیکورٹی کے سخت ترین اقدامات نے تعزیہ نکالنے والوں کو پریشان کردیا ہے۔ پہلے انٹری کراؤ، پھر تعزیے کا روٹ بتائو اور اپنی سیکورٹی کا خود بندوبست کرو۔ دوسری جانب مہنگائی بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے تعزیے کی تیاری پر خرچہ بہت بڑھ گیا ہے۔ مائی تاجی کے تعزیے پر کام کرنے والے عظیم کا کہنا تھا کہ وہ اس تعزیے کی تیاری میں ہاتھ بٹاتا ہے اور عاشورہ والے روز جلوس میں تعزیے کے آگے ڈھول یا تاشہ لے کر چلتا ہے۔ محرم گزرنے کے بعد تعزیے کے حصے الگ الگ کر چھت پر رکھ دیتے ہیں۔ پھر محرم شروع ہونے سے دس روز قبل تعزیے کے ڈھانچے پر کام شروع کردیا جاتا ہے۔ اب اس پر نئے کاغذ، رنگ برنگی لائٹیں لگائیں گے اور رنگ و روغن کریں گے۔ عظیم کا کہنا تھا کہ چاندے کے پتروں پر پالش کراتے ہیں اور تعزیہ 9 محرم کو تیار کرلیا جاتا ہے۔ دس محرم کو جب اہل تشیع کا مرکزی ماتمی جلوس ایم اے جناح روڈ سے گزر جاتا ہے تو اس کے بعد تعزیوں کا جلوس نکلتا ہے جو نمائش چورنگی سے کیماڑی نیٹی جیٹی پل تک جاتا ہے۔ وہاں سے چکر لگا کر تعزیہ واپس لے آتے ہیں اور گھر میںکھول کر رکھ دیتے ہیں۔ تعزیے پر کام کرنے والے سلیم کا کہنا تھا کہ 20 سال قبل تک یوم عاشور پر ایم اے جناح روڈ پر شہر بھر سے لائے جانے والے تعزیوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد ہوتی تھی۔ نمائش چورنگی سے بولٹن مارکیٹ اور کھارادر تک جلوس میں تعزیے نظر آتے تھے۔ تعزیہ بنانے والوں میں خوبصورت اور قیمتی تعزیوں کا مقابلہ ہوتا تھا جبکہ ڈھول تاشے والوں کے گروپوں میں بھی مقابلے ہوتے تھے اور دونوں الگ الگ انعام حاصل کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تقریباً ساڑھے 5 سو تعزیے والے رجسٹریشن کراتے ہیں۔
لی مارکیٹ میں ککری گراؤنڈ کے قریب تعزیہ بنانے والے قاسم کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ان کے چچا علی محمد نے تعزیہ بنانا شروع کیا تھا۔ وہ اب بھی وہ بھارتی گجرات میں 3 تعزیے بنواتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی یہاں کراچی میں لی مارکیٹ، کھارادر اور پرانا حاجی کیمپ سے تین تعزیے نکالتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 10 سال پہلے تک جو تعزیہ 20 ہزار میں بنتا تھا، اب اس پر چار گنا زیادہ لاگت آتی ہے۔ اب چند خاندان اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ نئی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قاسم نے بتایا کہ اب ان سے پہلے جیسی محنت نہیں ہوتی۔ وہ بس لڑکوں کو ڈیزائن بتاتے ہیں کہ اس طرح بنالو، کام میں مدد نہیں کراتے ہیں۔ وہ دکانداری کرتے ہیں تاہم محرم کا چاند دیکھ کر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ سال بھر میں تعزیے کیلئے جمع شدہ رقم سے آرائشی اشیا خریدتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈیا میں موجود ان کے رشتہ دار ہر سال تعزیوں کے نئے ڈیزائن بناکر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امام حسینؓ سے عقیدت کے طور پر تعزیہ بناتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ تمام کاریگر باوضو ہوکر کام کریں۔ انہوں نے بتایا کہ پندرہ بیس سال قبل تک بھارتی شہر گجرات، جودھپور، لکھنؤ اور یو پی سے تعزیے بنانے والے کاریگر بلوائے جاتے تھے۔ کھارادر میں قیمتی تعزیے بنتے تھے، جن پر اس زمانے میں دو سے تین لاکھ روپے کا کام ہوتا تھا۔ تعزیہ بنانے والے کاریگر محمد یوسف کا کہنا تھا کہ وہ 1500 روپے دیہاڑی پر کام کر رہا ہے اور گزشتہ 37 سال سے اس کام سے وابستہ ہے۔ عام دنوں میں مزدوری کرتا ہے۔ وہ تعزیے بنانے کا کام حیدرآباد اور ملتان میں بھی کرچکا ہے۔ یوسف کے بقول پنجاب میں اب بھی ہزاروں کی تعداد میں تعزیے نکلتے ہیں۔
کھارادر میں تعزیہ بنانے والے داؤد کا کہنا تھا کہ وہ والد عبداللہ کی منت پوری کرتے ہیں، جو شہدائے کربلا سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ ان کا خاندان 60 سال سے تعزیہ بنا رہا ہے، پہلے چچا بنواتے تھے۔ اب وہ خود اپنی نگرانی میں بنواتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2010ء میں یوم عاشور کے مرکزی جلوس میں بم دھماکے کے بعد سے تعزیوں کے جلوس میں کمی آئی ہے۔ کیونکہ سیکورٹی کے معاملات بہت سخت ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭٭