عباس ثاقب
سچن بنڈاری خاصی دیرتک حیرت اور بے یقینی کے عالم میں سگریٹ کیس کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس کی حیرانی دور کرنے کے لیے میں نے کیمرے کے پوشیدہ لینس کی نشان دہی کی اور اس کے استعمال کا طریقہ اور لازمی احتیاطیں بتائیں۔ وہ خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ میں نے اسے ذہنی طور پر آمادہ پاکر کہا۔ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا یہ راز بعد میں بھی کبھی نہیںکھلے گا۔ لیکن تم جتنی جلدی یہ کام پورا کردو، یہ تمہارے اور میرے حق میں بہتر ہوگا۔ ویسے بھی، میں جانتا ہوں کہ تمہارے سسر مہاراج کا انتم سمے زیادہ دور نہیں ہے۔ اگر اس کے دیہانت (انتقال) سے پہلے زیادہ سے زیادہ کام نمٹالو تو ہم دونوں کے لیے بہتر ہوگا‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’تم مجھے وہ لسٹ دکھاؤ۔ میں آج کل میں ان سب ڈاکومنٹس اور ڈرائنگز وغیرہ کو علیحدہ کرلوں گا اور پھر اُچت اوسر (مناسب موقع) ملتے ہی باری باری ان کی فوٹو گرافی کرلوں گا‘‘۔
وہ بظاہر تعاون پر پوری طرح رضامند تھا، تاہم میں نے احتیاطاً صورتِ حال کے تمام پہلوؤں کا ادراک کرانا ضروری سمجھا۔ ’’مسٹر سچن بھنڈاری، میراخیال ہے تم اتنی سمجھ تو ضرور رکھتے ہوگے۔ اتنے نازک مشن پر میں اکیلے کام نہیں کر رہا ہوں۔ یہ معاملہ ایکسپرٹس کی پوری ٹیم کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اگر تم نے کوئی ہوشیاری دکھاکر مجھے پھنسوا بھی دیا تو میرے ساتھی فوراً حرکت میں آجائیں گے اور تمہارا پول کھول دیںگے۔ اس کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا، یہ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو‘‘۔
مجھے لگا کہ اس نے خفیف سی جھرجھری لی ہے۔ وہ بولا تو اس کے لہجے میں مجھے کوئی تصنع محسوس نہیں ہوا۔ ’’تم چنتا نہ کرو۔ میں کوئی جوکھم (خطرہ) اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ تم بس وہ لسٹ میرے حوالے کردو اور نشچنت (مطمئن ) ہوجاؤ۔ تمھارا کام ہوجائے گا!‘‘۔
وہ خاصی دیر تک میری فراہم کردہ فہرست کے مندرجات گھورتا رہا۔ اس کے چہرے پر تفکر نمایاں تھا۔ بالآخر اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’ان میں سے زیادہ تر کے فوٹو گرافس تو آسانی سے کھینچ لوں گا، باقیوں کے لیے کافی کشٹ اٹھانا پڑے گا۔ کموڈور نیل کنٹھ کرشنن کے آفس کے ریکارڈ لاکر میں رکھے ہیں‘‘۔
میں نے امید بھرے لہجے میںکہا۔ ’’کٹھنائی تو ہوگی، پرنتو یہ کام ہو تو جائے گا ناں؟‘‘۔
اس نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، لیکن اس کے لیے مجھے کموڈور جی کے دلّی کے کسی دورے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کی غیر حاضری میں کسی بہانے ان کے دفتر جاؤں گا۔ اس کے سوا کوئی اُپائے (ترکیب ) نہیں ہے‘‘۔
میں نے اپنی فکر دباتے ہوئے پوچھا۔ ’’ان کا راجدھانی آنا جانا تو لگا رہتا ہوگا ناں؟‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’ادھیکتر (زیادہ تر) کوہلی جی ہی دلّی جاتے ہیں۔ لیکن اب وکرانت کو سمندر میں اتارنے کے دن قریب آرہے ہیں تو ان کے ٹرپس بھی سمبھاوتھ (امکان) ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، تم جلد سے جلد اپنی تحویل میں موجود ڈاکومنٹس وغیرہ کے فوٹو گرافس بنالو۔ شاید جلد ہی کموڈور جی کا بھی راجدھانی کا ٹرپ آجائے۔ میں کل بھی ٹریننگ کے لیے تمہارے پاس آؤں گا۔ لیکن تم فوٹو کھینچنے کی گنجائش پوری ہونے کے بعد کیمرا میرے حوالے کرنا۔ اسے میں ایک دو دن کے اندر دوبارہ تمہارے پاس پہنچادوں گا‘‘۔
اس رات میں سچن کے کوارٹر سے رخصت ہوکر اپنے گھر پہنچا تو ذہن کے دور دراز گوشوں سے جھانکتے کچھ اندیشوں سے قطع نظر میں خود کو خاصا مطمئن محسوس کر رہا تھا۔ اگلی صبح اسلم حسب معمول سورج پوری طرح طلوع ہونے سے پہلے ہی میرے گھر پہنچ گیا۔ وہ خاصا اتاؤلا لگ رہا تھا۔ مجھے سے ہاتھ ملاتے ہی پوچھا ’’کیا خیر خبر ہے چھوٹے بھیا؟ کل کوئی کام بنا؟ افتخار صاحب کے لیے کوئی پیغام؟‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پیغام نہیں، خوش خبری۔ الحمد للہ ، میری کوشش بظاہر کامیاب رہی ہے…‘‘۔
میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ خوشی کے مارے مجھ سے لپٹ گیا۔ اس کی زبان سے میرے لیے ستائشی کلمات کا چشمہ ابل رہا تھا۔ میں نے اسے تفصیل بتائی تو ایک بار پھر زبردست شاباش ملی۔
میں نے پہلے کی طرح مورس کوڈ میں رات کی کارگزاری کی رپورٹ اسلم کے ہاتھ افتخار صاحب کو بھجوادی۔ اسلم کے رخصت ہونے کے بعد میں اپنی ٹیکسی میں سیدھا سچن کے کوارٹر کے قریب جا پہنچا۔ اگرچہ اب سارا معاملہ اسی کے ہاتھ میں تھا، تاہم میں اپنی طرف سے تشفی کرلینا چاہتا تھا کہ اس کے معمولات میںکوئی توجہ طلب رد و بدل تو نہیں ہوا۔ سچن گھر سے سیدھا اپنے دفتر پہنچا۔ چھٹی کے وقت میں پہلے سے اس کا منتظر تھا۔ اس نے دفتر سے نکلنے کے بعد سیدھا گھر کا رخ کیا، حالانکہ میرے اندازے کے مطابق اس کا شراب کا کوٹا ختم ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ میرے نشانے پر آنے کے بعد وہ شاید سدھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭