کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے قومی ادارہ برائے امراض قلب پر چھاپہ مارکر بھرتیوں ، ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور ادویات و طبی سامان کی خریداری سمیت دیگر اہم ریکارڈ ضبط کرلیا ۔ اسپتال کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ 8 افراد پر مشتمل نیب کی ٹیم ساڑھے 4 گھنٹے سے زائد وقت تک اسپتال میں رہی اور ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ ، ادویات کے اسٹور ، اکاونٹس ، پروکیورمنٹ اور کیتھ لیب سمیت دیگر شعبہ جات کے ریکارڈ کی چھان بین کی اور ملازمین سے پوچھ گچھ کی ، نیب کے چھاپے سے اسپتال ملازمین پریشانی کا شکار دکھائی دئے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب حکام نے این آئی سی وی ڈی میں ہونے والی بھرتیوں اور ڈاکٹروں سمیت دیگر اہم عہدوں پر تعینات ایسے ملازمین جن کی تنخواہیں لاکھوں روپے میں بتائی جاتی ہیں کے علاوہ اسپتال میں خریدی جانے والی ادویات ، اسٹنٹ سمیت دیگر طبی سامان و آلات کی خریداری اور اور ان کے استعمال ہونے کا اہم دستا ویزی ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 20 اگست 2018 کو نیب حکام کی جانب سے این آئی سی وی ڈی کو لکھے جانے والے لیٹر میں ایسے ملازمین جنہیں ماہانہ تنخواہ 15 لاکھ یا اس سے زائد ادا ئیگی کی جاتی ہیں کے علاوہ دیگر ریکارڈ طلب کیا تھا جسے اسپتال نے نیب حکام کو فراہم نہیں کیا ، ذرائع کے مطابق قومی ادارہ برائے امراض قلب میں مبینہ کرپشن اور بے قاعد گیوں کے خلاف نیب حکام متعدد موصول ہونے والی درخوستوں پر انکوائری کر رہی تھی جس پر اسپتال میں کارروائی کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے اسپتال میں فرائض انجام دینے والے سینئر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اسپتال میں کنسلٹنٹ ڈاکٹروں کو لاکھوں روپے تنخواہوں کی ادائگی ہوتی ہے اور الاؤنسز وغیرہ ملاکر بعض کی تنخواہ 15 لاکھ روپے سے بھی زائد بن جاتی ہے جو کہ ڈاکٹرز قانونی طور پر حاصل کر رہے ہیں ، اس حوالے سے تمام دستاویزات ریکارڈ پر ہیں ، ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اسپتال میں فرائض انجام دینے والے تمام کنسلٹنٹس جن میں ڈائریکٹر این آئی سی وی ڈی بھی شامل ہیں شہر کے نجی اسپتالوں سے اپنی پریکٹس ختم کر کے تمام وقت اسپتال کو دینے کا سبب بھی ان کی مراعات میں اضافہ ہونا ہے اسی وجہ سے ادارے کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے اور مریضوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کا میعار بہتر ہوا ہے تاہم اگر کوئی بے ضابطگی یا کرپشن کی شکایت سامنے آئے تو اس کے خلاف تحقیقات ضرور ہونی چاہیئے ۔ اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے ڈائریکٹر این آئی سی وی ڈی پروفیسر سید ندیم قمر سے متعدد بار کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا ۔