میری کشتی ہرمز جزیرے پر تقریباً 12 بجے دوپہر پہنچ گئی۔ یعنی اس نے بندر عباس کے ایسکلا پائیں سے ایسکلا ہرمز تک کا کوئی 25 کلو میٹر کا صفر نصف گھنٹے میں طے کیا۔ ایسکلا پائیں سے مرکز ہرمز کا براہ راست فاصلہ صرف بائیس کلو میٹر ہے۔
ہرمز جزیرے پر اتر کر معلوم ہوا کہ یہ تو نیم آباد قسم کا جزیرہ ہے۔ اس کے اکثر باسی اپنے مکانوں کو چھوڑ کر کہیں نقل مکانی کر گئے ہیں۔ پورے جزیرے میں کہیں کسی قسم کی کوئی دکان ہی نہ تھی۔ نہ کوئی مسافر یہاں کھانا کھا سکتا تھا نہ چائے پی سکتا تھا، حتیٰ کہ پینے کا پانی بھی کہیں دستیاب نہ تھا۔ کوئی بچا کھچا جزیرے کا باسی ہی اگر رحم کھا کر آپ کو پانی پلا دے تو خیر، ورنہ آپ پیاسے ہی راہی ملک عدم ہوں گے۔ میں اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لایا تھا کہ بندر عباس پر مجھے بتایا گیا تھا کہ ہرمز میں سب ضروریات زندگی ملیں گی۔ اس پرستم ظریفی یہ کہ جزیرے کی خشک ہوا یا نمک کے ننگے اور خاصے وسیع سلسلہ کوہ کے اثر سے مجھے جزیرے پر اترتے ہی پیاس نے ستانا شروع کر دیا۔
اس صورت حال کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیا کہ پانی اور کھانے کی تلاش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مجھے جلد از جلد وہ کام ختم کر لینا چاہیے کہ جس کے لئے میں یہاں آیا ہوں۔ علاقے کا نقشہ میرے پاس تھا اور مجھے معلوم تھا کہ آٹھ کلو میٹر نصف قطر رکھنے والے اس نمک کے گنبد (سالٹ ڈوم) کے باہری کنارے پر یا سمندر کے کنارے کے ساتھ ساتھ ایک ستائیس کلو میٹر طویل سرکلر سڑک بنی ہوئی ہے۔ اگر میں اس سڑک پر نمک کے مظاہر کو چیک کرتا ہوا اپنا ایک چوتھائی چکر بھی مکمل کر لوں تو اس سالٹ ڈوم کے بارے میں مجھے خاصا اچھا آئیڈیا ہو جائے گا۔ اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جب میں اس سڑک پر پہنچنے کیلئے آگے بڑھا تو ایک بڑا دروازہ سامنے آگیا، جس نے راستے یا سڑک مکمل طور پر بند کر رکھی تھی اور پیدل آدمی بھی پار نہ جا سکتا تھا۔ ابھی میں اس صورت حال سے نمٹنے کی بابت سوچ ہی رہا تھا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار تین یا چار جوان اشخاص وہاں آ پہنچے اور مجھ سے معلوم کیا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میرے بتانے پر وہ لوگ کہیں سے چابی بردار نگہبان کو لائے اور دروازہ کھلوادیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آگے کیوں جارہے ہیں اور یہ کہ کہاں سے آئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میرے بتانے پر کہ میں ایک پاکستانی زمین شناس ہوں اور اس جزیرے کی زمین شناسی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں، یہ سن کر انہوں نے مجھ سے کوئی تعرض نہ کیا۔ مگر میں نے نوٹ کیا کہ ان میں سے ایک صاحب مستقل مجھے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بہرحال میں نے انہیں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے گمان تھا اور ہے کہ وہ صاحبان کسی ایرانی سیکورٹی ایجنسی کے کارندے تھے۔
ہرمزکی سرکلر روڈ پر چند کلومیٹر چلا ہوں گا تو محسوس کیا کہ اس گرمی اور پیاس کی شدت میں یہ ستائیس کلو میٹر کا سفر پورا نہ کرسکوں گا۔ دوسرے اس سڑک کے ساتھ جتنا بھی میں چلا تھا اس میں مقامی پتھروں کے اچھے مظاہر (آؤٹ کراپس) بھی نہ آئے تھے۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ بجائے سڑک کے ساتھ چلنے کے، میں نمک کے اس آٹھ کلو میٹر قطر والے ڈوم کے مرکز کی طرف سفر کروں کہ وہاں اچھے مظاہر (exposures) ملیں گے۔ یہ طے کرکے میں نے اپنا رخ ہرمز سالٹ ڈوم کے مرکز کی طرف پھیرلیا اور یہ بفضل تعالیٰ صحیح فیصلہ تھا۔ مگر درمیان میں ایک برائن نالے کی وادی آئی جس کو میں نے اپنی فیلڈ ڈائری میں، سفید دریا کی وادی کے نام سے قلمبند کیا ہے۔
یہ کیونکہ عجیب و غریب وادی تھی اس لئے ازراہ تجس میں اس وادی میں برائن کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا سمندر کے کنارے تک پہنچ گیا۔ یہاں ایک نمک کی ڈھیری پر کھڑے ہوکر مختلف اطراف کی تصاویر اتاریں۔ اس ڈھیری پر بیٹھ کر اور اپنی پیاس سے بے حال ہوکر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میٹھے پانی کیلئے بے اختیار دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ مگر جیسے ہی یہ دعا مانگنے لگا فوراً ہی میرے دل میں یہ خیال آیا کہ بزرگان دین نے فرمایا ہے اور عام فہمی (common sense) کا بھی تقاضا ہے کہ آدمی کو ایسی دعا مانگنی چاہئے جو اسے زیب دیتی ہو اور جو عام حالات میں ممکن ہو۔ نیز لغو دعاؤں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ بھلا اس نمکین پانی کے سمندر میں گھرے اس نمک کے جزیرے میں میرے لئے میٹھا پانی کہاں سے آسکتا ہے؟ مگر دوسرے ہی لمحے میں نے سوچا کہ میں دعا اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہوں، کسی انسان سے نہیں۔ پھر میں نے دعا مانگی اور دل کی گہرائیوں سے مانگی میری دعا کے الفاظ یہ تھے۔ ’’یااللہ میں جانتا ہوں کہ اس سمندر سے گھرے نمک کے جزیرے میں میٹھے پانی کا کوئی امکان نہیں ہے، مگر کیونکہ تو قادر مطلق ہے اور ہر جگہ ہر چیز پیدا کرسکتا ہے اس لئے میں تجھ سے اس نمک کے جزیرے پر میٹھے پانی کا سوال کرتا ہوں۔ میرے مالک مجھے میٹھا پانی عطا فرما اور میری پیاس سے زیادہ عطا فرما کہ تو غفور رحیم ہے کہ تو قادر مطلق ہے۔‘‘
میں یہ دعا مانگ کر ہرمز سالٹ ڈوم کے مرکز کی طرف چل دیا، جو ایک عظیم اور بلند و بالا سرخ رنگ کے قلعے کی شکل میں میرے سامنے تھا اور عجیب پر شکوہ منظر پیش کر رہا تھا۔ پاکستان میں نمک کے گنبدوں پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک عرصہ دراز ہوگیا تھا، مگر ایسا پر شکوہ اور خوبصورت منظر اس سے پہلے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اگر شدید پیاس نہ لگی ہوتی تو یقیناً میں اس منظر سے اور بھی زیادہ لطف اندوز ہوتا۔ میں پیاس کی شدت اور تھک جانے کی وجہ سے نمک کے اس عظیم پلگ تک تو نہ جا سکا، مگر اس کے بالکل قریب ضرور پہنچ گیا۔ اس کی تصاویر اتاریں اور وہاں سے اپنے بائیں جانب مڑ گیا کہ سامنے نمک کی کٹی پھٹی ڈھیریاں بڑا اچھا منظر پیش کر رہی تھیں۔ وہاں سے مجھے نمک کے فلوایج اسٹرکچر (flowage Structures) کو دیکھنے کی اور نمک کی نمونہ گیری کرنے کی مناسب جگہیں مل جانے کی امید تھی۔ (جاری ہے)
Next Post