جاپان میں ایک صدی کی عمر والے افراد کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ عمر کی سنچریاں بنانے والے جاپانی شہریوں کی بیشتر تعداد ایکٹیو اور صحت مند بتائی گئی ہے جس میں 80 فیصد خواتین ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ جاپان میں اوسط عمر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جو تقریباً 80 برس بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جاپانی حکومت بوڑھوں کی ویلفیئر پر کافی رقم خرچ کرتی ہے اور انعامی شیلڈ بھی دیتی ہے۔ امریکی جریدے کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر حکومتی پالیسی کو تبدیل نہ کیا گیا تو جاپان میں جوانوں کی نسبت بڈھے ہی باقی بچیں گے اور ملکی ترقی کے شعبوں مثلاً تجارت اور کارخانوں سمیت مختلف حکومتی و غیر سرکاری شعبہ جات میں کام کرنے کیلئے نہ تو لیبر دستیاب ہوگی اور نہ ہی افسران۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سماجیات میری برنٹن کا دعویٰ ہے کہ اگر آبادی کے عدم پھیلائو کی جاپانی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو یہ ایک قوم کی موت کے مترادف ہوگا، جس سے مفر ممکن نہیں۔ جاپانی ویلفیئر منسٹری کی جانب سے اس سلسلے میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاپان میں طویل العمر افراد سے جب ان کی صحت کا راز پوچھا جاتا ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ وہ سادہ غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ حسد کی عادت سے خود کو دور رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ متحرک رہا جائے۔ جاپان کی ہیلتھ، لیبر اور ویلفیئر کی وزارتوں کا کہنا ہے کہ وہ جاپانی باشندوں کی خاص دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور ان کی صحت اور طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے انہیں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان میں معمر افراد کی تیزی سے بڑھتی تعداد کی وجہ معاشرے میں بچوں کی پیدائش کا کم تر تناسب ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1963ء میں جاپان میں 100 برس کی عمر والے شہریوں کی تعداد محض153 تھی۔ جبکہ رواں سال 2018ء کا سروے اور شماریاتی جائزہ تصدیق کررہا ہے کہ جاپان میں سو سال یا اِس سے اوپر عمر کے شہریوں کی تعداد ستر ہزار سے متجاوز ہے۔ جاپانی میڈیا کا کہنا ہے کہ جاپان میں سو سال کی عمر پوری کرنے والے تمام معمر شہریوں کو چاندی کے انعامی کپ ہر سال دئے جاتے رہے ہیں۔
لیکن امسال انہیں چاندی کی کوٹنگ والے کپ دیئے جائیں گے۔ جاپانی حکومت کے اعلان کے مطابق دنیا کے معمر ترین جاپانی باشندے چیو میاکو کا 117 برس کی عمر میں انتقال ہوا اور ان کی جگہ لینے والی خاتون کین تناکا کی عمر 115برس ہے۔ جاپانی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاپانی بوڑھوں میں جرائم کرکے جیل جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ جاپانی بوڑھوں کیلئے معاشرے میں دوست احباب باقی نہیں بچے ہیں اور جاپانی معاشرے کے نوجوان اور ادھیڑ عمر طبقہ، جاپانی بوڑھوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی تنہائی کو دور کرنے پر رضامند نہیں ہوتے۔ اسی لئے معاشرے میں نظر انداز کئے جانے اور جیل جانے کی صورت میں جیل عملہ کی جانب سے مناسب انداز میں دیکھ بھال اور بہتر کھانوں اور اچھی رہائش کی وجہ سے جاپانی بوڑھے معاشرے میں جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں تاکہ ان کو جرائم کی پاداش میں جیل بھیجا جائے اور وہ معاشرے میں نظر انداز کئے جانے کے بجائے جیل جاکر مناسب سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ واضح رہے کہ جاپانی جیلوں میں مقید مجرموں کیلئے عالمی سطح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور ان کی صحت اور حقوق کا بڑا خیال کیا جاتا ہے جس میں ان کیلئے میڈیکل کی سہولت سمیت بہترین قیام و طعام اور کھیلوں اور ورزش کیلئے جمنازیم تک موجود ہیں۔ جبکہ معمر قیدیوں کیلئے ان کی عمر کے لحاظ سے کوئی مشقت یا کام نہیں لیا جاتا اور ان کیلئے الگ سے خدمت گار بھی متعین کئے جاتے ہیں اور ان کیلئے اخبارات، انٹرنیٹ، کمپیوٹرز سمیت تعلیمی و تحقیق سہولیات اور مباحثوں اور بیٹھکوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
Prev Post