دینی مدارس سے ہر سال لگ بھگ 15 ہزارسے زائد طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان میں سے بمشکل 2 فیصد طلبہ یونیورسٹی، اسکول سمیت دیگر سرکاری اداروں میں ملازمت حاصل کر پاتے ہیں۔ کیریئر کونسلنگ نہ ہونے سے طلبہ کی بڑی تعداد فراغت کے بعد عموماً کسی بڑے ادارے میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے۔ بعض مدارس اپنے طلبہ کو جدید علوم پڑھا کر مختلف اداروں میں بھیجتے ہیں۔ تاہم اجتماعی طور پر بعد از فراغت بہتر وسیلہ روزگار کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا جاتا۔
مدارس سے 16 سال تعلیم حاصل کرنے اور سند فراغت پانے کے بعد طلبہ کیا کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو مدارس سے وابستہ ہر فرد کیلئے توجہ کا باعث رہتا ہے۔ مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے یا عصری درس گاہوں سے فراغت حاصل کرنے والے دونوں ہی کو بعد از تحصیل علم، غم روز گار کی الجھنوں اور پریشانیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ تاہم عصری اداروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے طلبہ کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی کراتے ہیں، تاکہ فراغت کے فوری بعد انہیں مستقبل بنانے میں آسانی ہو۔ جبکہ دینی اداروں کی جانب سے مجموعی طور پر عصری تعلیم اور طلبہ کیلئے مخصوص نوکری کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ہے۔ مدارس سے فراغت پانے والے طلبہ کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں انہیں یونیورسٹیوں، کالجز، اسکولوں، پاکستا ن آرمی، نیوی اور رینجرز سمیت دیگر متعلقہ اداروں میں بطور امام و خطیب، اخبارات میں سب ایڈیٹرز، تصنیف و تالیف کے اداروں میں ہی زیادہ تر نوکریاں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی بیکنگ، یونیورسٹی کے کلیہ آرٹس کے دیگر موضوعات، قانون، بین الاقوامی تعلقات، مطالعہ پاکستان، تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات میں بھی معمولی سی کیئریئر کونسلنگ کی صورت میں عالم دین باآسانی جا کر خدمت دین اور نوکری کر سکتے ہیں۔ تاہم اس وقت ملک بھر میں دینی مدارس کے امتحانی نظام کیلئے قائم 5 بڑے بورڈز ہیں، جن کی ظاہر کردہ تعداد کے مطابق اس وقت ملک بھر میں مدارس کی تعداد 30 ہزار سے 40 ہزار کے لگ بھگ ہے، جن میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 25 سے 30 لاکھ بتائی جا رہی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مدارس کا الحاق رکھنے والے وفا ق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان) کے تحت 19 ہزار 491 مدارس و جامعات ہیں، جن میں طلبا و طالبات کی تعداد 24 لاکھ 98 ہزار 329 ہے۔ جبکہ اب تک وفاق المدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد 3 لاکھ 43 ہزار 77 سے زائد ہے۔ جبکہ ہر سال لگ بھگ 10 ہزار علمائے کرام فارغ ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر اہلسنت بریلوی مسلک کے مدارس ہیں، جن کی ملک بھر میں مجموعی تعداد 10 ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے، جہاں ہر سال 3 سے 4 ہزار علمائے کرام فارغ ہوتے ہیں۔ جس کے بعد اہلحدیث مسلک کا وفاق المدارس السلفیہ، جماعت اسلامی کے مدارس کا امتحانی بورڈ رابطہ المدارس الاسلامیہ اور وفاق المدارس الشیعہ ہے، جن سے لگ بھگ دو ہزار علما و ذاکرین تیار ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر 15 ہزار سے زائد علما ہر سال دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہیں، جن میں سے2 فیصد بمشکل سرکاری نوکری حاصل کر پاتے ہیں۔ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے رہنما مولانا اسحاق ظفر بتاتے ہیں کہ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے ساتھ ملحق مدارس کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے، جن میں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ہمارے مدارس سے اکثریت فارغ ہونے والے طلبہ مساجد و مدارس میں جاتے ہیں۔
جامعہ نصر العلوم کے مہتمم و مذہبی اسکالر مولانا محمد زاہد الراشدی کے مطابق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے 1937ء میں علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی 50 سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کیلئے انتہائی اہم قرار دیا تھا کہ انہیں مدارس کے دائرے نکل کر نوکریاں فراہم کی جانی چاہئیں۔ حضرت مدنی کے خطبہ صدارت کے مطابق مولانا سید حسین احمد مدنی نے برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنے کی بات فرمائی تھی، ان تجاویز پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان حکومت کے ساتھ گفتگو کی جاسکتی ہے۔ خطبہ کے مطابق ’’غور طلب امر یہ ہے کہ صرف بھارت میں کئی لاکھ مسلمان ہر سال عربی تعلیم میں مشغول رہتے ہیں اور ہر سال ہزاروں طالب علم آٹھ دس برس کی محنت شاقہ کے بعد سند فراغ حاصل کرتے ہیں۔ ان لئے بظاہر معاش کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہی لوگ قومی اور مذہبی رہنما اور قومی رہبر ہوتے ہیں، مگر معمولی بسر اوقات اور اپنی قوت سے قدر کفالت حاصل کرنے کا موقع بھی ان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رہنما ہوتے ہیں مگر محتاج اور مفلس ہوتے ہیں۔ یقیناً مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے اس مسئلہ سے اب تک بہت بڑی غفلت برتی ہے۔ شکایت کی جاتی ہے کہ اچھے علماء پیدا نہیں ہوتے، مگر اچھے علماء پیدا ہونے کے اسباب و ذرائع کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ضروری ہے کہ علماء کو محتاجی اور افلاس سے نکالا جائے۔ ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اپنی روزی اپنے قوت بازو سے حاصل کر سکیں تاکہ ان میں فارغ البالی، خود داری، آزادی رائے پیدا ہو سکے اور ’’چہ خورد بامداد فرزندم‘‘ سے فی الجملہ آزاد ہو جائیں۔ یہ امر مشکل نہیں ہے مگر اس کیلئے متفقہ قومی آواز کی ضرورت ہے۔ مسلم تعلیمی کانفرنس کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لے۔ مجھ کو قوی امید ہے کہ پوری مسلم قوم اس مسئلہ میں کانفرنس کا ساتھ دے گی۔
وفا ق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکریٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ ہمارے وفاق المدارس تقریبا 25 ہزار ہیں، جن میں 10 ہزار طلبا اور 15 ہزار طالبات فارغ ہوئی ہیں۔ ان میں سے اکثر فضلا و فاضلات تو مدارس میں تدریس کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں اور ایم فل و پی ایچ ڈی کرلیتے ہیں۔ بعض علمائے کرام بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر لیکچرار، اسکول میں استاد بھرتی ہو جاتے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ مدارس کے منتطمین اور وفاق المدارس اپنا کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ جو لوگ یا ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ کو دیگر شعبہ جات میں جانا چاہیے وہ آگے آئیں اور ہمارے طلبہ کو گائیڈ کریں۔ ہمارے ان طلبا کو شارٹ کورسز کروائیں تاکہ یہ قانون کے کورس کرکے بطور وکیل خدمات انجام دیں سکیں۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات میں یہی طریقہ کار کیا جاسکتا ہے۔
مفتی توصیف احمد دینی مدرسہ کے فاضل ہیں اور اس وقت سرکاری اسکول میں عربی ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مدارس سے ہم نے تعلیم حاصل کی اور تھوڑی سی محنت کی جس کے بعد ہم نے ٹیسٹ دیا اور کوالیفائی کرکے اسکول میں ملازمت کر لی۔ جب ہم نے ٹیسٹ دیا تھا تو اس وقت گراؤنڈ بھرا ہوا تھا، جس میں کم از کم 6 سے 7 ہزار علمائے کرام نے عربی، اسلامیات اور قاری کی پوسٹ کیلئے اپلائی کیا تھا، جبکہ عربی استاد کی کل اسامیاں 20 اور اسلامیات و قاری کل اسامیاں 40 تھیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواہشمند ہزاروں میں جبکہ پوسٹیں درجنوں میں ہوتی ہیں۔
Prev Post
Next Post