متحدہ نے وزارت اوور سیز مانگ لی۔ دفاتر کھلوانے کا بھی مطالبہ
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک/ ایجنسیاں) ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان سے وزارت اوورسیز مانگ لی جب کہ کراچی حیدرآباد سمیت اندرون سندھ اپنے دفاتر کھلوانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ملاقات کرنے والوں میں وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی، مئیر کراچی وسیم اختر، عامر خان ، کنور نوید جمیل ، نسرین جلیل و دیگر شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ رہنما زیادہ وقت اپنے دکھڑے روئے اور فرمائش کی کہ ان کے دفاتر کھلوانے میں مدد کےساتھ سیاسی سرگرمیوں کیلئے کھلی چھوٹ دلوائی جائے۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ کے کنوینر اور رکن قومی اسمبلی خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے سامنے کراچی اور حیدرآباد کا مقدمہ رکھا ہے، مردم شماری پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور لاپتہ ساتھیوں کے حوالے سے بھی وزیراعظم سے بات ہوئی ہے۔ ہم نے کہا کہ کراچی کو 500ارب کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کی 70 فیصد معاشی ذمہ داری کراچی اٹھاتا ہے۔اسے اتنا ملنا چاہئے جو اس کا حق ہے۔ یہاں بدامنی پیدا کرکے انڈسٹریاں شفٹ کی گئیں۔ حیدرآباد میں جامعہ کے قیام پر بھی بات ہوئی ہم اس معاملے پر کام کرچکے ہیں ۔کے پی ٹی ملازمین کو فارغ کرنے پر وزیر اعظم سے سوال کیا کہ کا حکومت آتے ہی ان کو فارغ کرنے کا پروگرام ہے ، عمران خان نے اس پر اتفاق کیا کہ کسی کو بیروزگار نہیں کریں گے۔ خالد مقبول نے دعوی کیا کہ ایم کیو ایم کو مزید وزارت ملے گی۔ ہم نے سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کا کہا ہے۔بلدیاتی اداروں کے حوالے سےبھی بات کی اور مارٹن کوارٹر کے لوگوں کی بے دخلی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ فاروق ستار سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں بات چیت کیلئے بلایا ہے تاہم اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے شہر میں پانی کے مسئلے کو سنگین قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے بحیثیت میئر اپنے تحفظات وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھے، کراچی میں پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم کو بتادیا ہے کہ پانی کے مسئلے پر فسادات ہوسکتے ہیں۔ میئرکراچی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت ہمیں نظر انداز کر رہی ہے۔ کے فور منصوبے کے لیے وفاق اپنی ذمہ داری پوری کرے۔وسیم اختر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو وزیرخزانہ کے ساتھ مل کر منصوبوں کا جائزہ لے گی اور ہم وہاں بیٹھ کر دیکھیں گے کہ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم کیا فیصلے ہوسکتے ہیں اور وفاق کتنے پیسے دے سکتا ہے جس کے بعد کچھ واضح ہوگا۔