کراچی ( رپورٹ: ارشاد کھوکھر) حکومت سندھ کی جانب سے رواں مالی سال 2018-19 کے آئندہ 9 ماہ کا بجٹ آج سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وفاق سے کم فنڈز جاری ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے مئی میں پیش کردہ بجٹ کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں غیر اعلانیہ طور پر تقریباً 27 ارب روپے کم مختص کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز والے شہروں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے ضلعی اے ڈی پی میں 5 ارب روپے اضافے کے ساتھ 35 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے جبکہ مئی میں پیش کردہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن میں اضافے کے ساتھ دیگر مراعات جاری رکھی جائیں گی۔ تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے یکم ستمبر 2018 سے 30 جون 2019 تک رواں مالی سال کے آئندہ 9 ماہ کا بجٹ تیار کر لیا ہے۔ آج صبح نو بجے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں منظوری کے بعد صوبائی محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی رکھنے والے وزیراعلیٰ سندھ صبح دس بجے سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے۔ حکومت سندھ نے مئی میں جو رواں مالی سال کا بجٹ پیش کیا تھا اس میں مجموعی ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 243 ارب 91 کروڑ روپے لگایا گیا تھا جن میں سے بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں پر اخراجات کا تخمینہ 46 ارب 89 کروڑ روپے اور وفاقی فنڈنگ سے چلنے والے منصوبوں کا تخمینہ 15 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ 9 ماہ کے بجٹ میں تخمینہ وہی رہے گا تاہم حکومت سندھ نے صوبائی اور ضلعی اے ڈی پی کے منصوبوں کے لئے 282 ارب روپے مختص کئے تھے جن میں سے ضلعی اے ڈی پی کی مد میں 30 ارب اور صوبائی اے ڈی پی کے لئے اور جاری ترقیاتی منصوبوں کی مد میں 252 ارب روپے مختص کئے جن میں سے 202ارب جاری اور 50 ارب روپے نئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے بلاک ایوکیشن کی مد میں مختص کئے تھے تاکہ نئی منتخب حکومت نئے منصوبوں کے لئے مختص کردہ رقم کی روشنی میں نئے منصوبوں کا انتخاب خود کرے۔ واضح رہے کہ مئی میں پیش کردہ پورے سال کے بجٹ میں سے اسمبلی سے صرف پہلے تین ماہ کے اخراجات کی منظور لی گئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ اب جو 9 ماہ کا ترقیاتی بجٹ پیش کیا جائے گا اس میں سے صوبائی اے ڈی پی کے نئے منصوبوں کے لئے مختص کردہ 50 ارب روپے سے 5 ارب روپے ضلعی اے ڈی پی کے منصوبوں کے لئے بڑھا کر مذکورہ مدمیں 35 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جبکہ نئے منصوبوں کے باقی 45 ارب روپے میں سے تقریباً 18 سے 20 ارب روپے تک نئے منصوبوں کے لئے مختص کئے جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح مئی 2018 میں پیش کردہ ترقیاتی بجٹ کے مد میں فی الحال تقریباً 27 ارب روپے کم مختص کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ وفاق سے بجٹ تخمینہ کے مقابلے میں کم فنڈز ہونے کے پیش نظر کیا گیا ہے مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ”ن“ کی سابق وفاقی حکومت نے مئی میں جو بجٹ پیش کیا تھا اس میں قابل تقسیم پول میں محصولات وصولیابی جو تخمینہ لگایا گیا تھا اس کو تیل ، گیس کی رائلٹی سرچارج وغیرہ سمیت این ایف سی ایوارڈ کے تحت رواں مالی سال میں سندھ کے حصے کے فنڈز کا تخمینہ 656 ارب روپے لگایا گیا تھا، اس حساب سے سندھ کا ماہانہ حصہ تقریباً 55 ارب 41 کروڑ روپے بنتا ہے۔تاہم رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ جولائی اور اگست میں سندھ کو تقریبا 111 ارب روپے کے مقابلے میں 44 ارب روپے کم یعنی تقریباً 67 ارب روپے ملے ہیں، مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلی سہ ماہی میں محصولات کی وصولیابی کم ہونے کے باعث صوبوں کو بھی فنڈز کم جاری ہوئے ہیں۔ لیکن حکومت سندھ کو اس بات پر تشویش ہے کہ گزشتہ مالی سال 2017-18 کے پہلے دو ماہ کے دوران وفاق نے جو فنڈز جاری کئے تھے اس سے بھی کم فنڈز جاری ہوئے ہیں اور وفاقی حکومت مالی بحران کی باتیں بھی کر رہی ہے، اس لئے فی الحال ترقیاتی اخراجات میں کمی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، تاہم اس حوالے سے جب وفاقی حکومت کی جانب سے منی بجٹ پیش کرنے کے بعد وفاقی محصولات کی وصولیابی بہتر ہونے کی صورت میں ترقیاتی منصوبوں کی رقوم میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں تمام تر ترجیح جاری ترقیاتی منصوبوں کو جلد مکمل کرنے پر ہو گی، جس میں واٹر کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ منصوبوں کے ساتھ نئے واٹر کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں اور کوٹری بیراج سے کینجھر جھیل کو پانی فراہم کرنے والی نہر میں پانی کے اخراج کی گنجائش بڑھانے کے لئے وفاقی حکومت کے منصوبے کے لئے حکومت سندھ کو اپنے حصے کی مد میں جو فنڈز خرچ کرنے ہیں، اس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ فنڈنگ والے منصوبوں کے لئے حکومت سندھ اپنے حصے کی مد میں خاطر خواہ فنڈ مختص کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ 9 ماہ کے بجٹ میں غیر ترقیاتی بجٹ میں زیادہ ردوبدل نہیں کیا جائے گا وہ اخراجات مئی میں پیش کردہ بجٹ کے مطابق تقریباً 800 ارب روپے ہی رہیں گے جن میں سے غیر ترقیاتی محصولاتی اخراجات 773 ارب 23 کروڑ روپے اور غیر ترقیاتی سرمایہ جاتی اخراجات 27 ارب 30 کروڑ روپے ہوں۔ مذکورہ اخراجات کی پہلی سہ ماہی کی اسمبلی سے منظوری ہو چکی ہے، باقی تقریباً 9 ماہ کے اخراجات کی اسمبلی سے منظوری لی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ رواں مالی سال پولیس میں 6 ہزار نئی اسامیوں کے ساتھ مختلف صوبائی محکموں میں جو 13 ہزار 336 نئی اسامیاں پیدا کرنے کی تجویز دی گئی تھی اسے بحال رکھا جائے گا اور نئی بھرتیوں سمیت دیگر نئے اخراجات کی مد میں 13 ارب 55 کروڑ روپے مختص رہیں گے تاہم کوشش کی جائے گی کہ مذکورہ مد میں اس سے کم فنڈز خرچ ہوں۔