سرفروش

0

قسط نمبر 118
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے چائے پی کر ڈھابے والے کو ادائیگی کی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ میری نظریں مسجد کے دروازے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
بالآخر مجھے افتخار صاحب مسجد سے نکلتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے سر پر ململ کی سفید ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں درمیانی رفتار سے ان کی طرف چلا اور جب وہ مسجد کے باہر کی طرف سے حضرت حاجی علی شاہ بخاریؒکی درگاہ کی جانب جانے والے راستے پر پیدل چلنے لگے تو میں ان سے چند ہی قدم کے فاصلے پر ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ انہوں نے یقیناً مجھے دیکھ لیا تھا، لیکن وہ انجان بنے رہے۔ لگ بھگ پچاس گز چلنے کے بعد وہ ایک گل فروش سے پھولوں کی چادر خریدنے کے لیے بھاؤ تاؤ کرنے لگے۔
میں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے چل دیا اور ایک دوسرے گل فروش سے آٹھ آنے کے پھول اور ایک روپے کی شیرینی خریدکر بندھوالی۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ راستہ سمندر میں چھوٹے سے جزیرے پر واقع حضرت حاجی علیؒ کی درگاہ کی طرف جانے والے پُل نما پختہ راستے میں تبدیل ہوگیا۔ جس سے دونوں طرف سمندر کی لہریں ٹکرا رہی تھیں، جن کے چھینٹے اور چھپکے بار بار راستے پر چلنے والے عقیدت مندوں کے کپڑے بھگو رہے تھے۔ ان عقیدت مندوں میں مجھے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو مرد اور عورتیں دکھائی دے رہی تھیں، جو چھوٹی بڑی ٹولیوں کی شکل میں ساحل سے لگ بھگ پانچ سو گز کے فاصلے پر واقع مزار کی طرف پروانہ وار رواں دواں تھیں۔ مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ زائرین کی اتنی بڑی تعداد کے اتنی محدود جگہ پہنچنے پر وہاں شاید تل دھرنے کی جگہ بھی نہ بچی ہو۔
’’بھائی یہ بمبئی میں میرا پسندیدہ ترین مقام ہے‘‘۔ کسی نے دھیمی آواز میں میرے کان میں کہا۔ میں نے آواز پہچان لی تھی۔ لہٰذا افتخار صاحب کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ ’’جب ذہن زندگی کے بکھیڑوں اور الجھنوں سے بوجھل ہونے لگتا ہے، میں یہاں آجاتا ہوں۔ اور ایسا اتنے تسلسل سے ہوتا ہے کہ ہندوستانی محکمہ خفیہ کا مسلط کردہ میرا ڈرائیور اب بغیر کہے سمجھ جاتا ہے اور مجھے مسجد میں چھوڑ کر ورلی کے ساحل پر موج مستی کے لیے نکل جاتا ہے۔ ہم نے دوبارہ ملاقات کے لیے باہم وقت بھی طے کر رکھا ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد کنارا مسجد کے باہر وہ مجھے اپنا منتظر ملے گا‘‘۔
اس اثنا میں ایک آوارہ موج نے لگ بھگ چودہ پندرہ فٹ چوڑے راستے کے کنارے سے زور سے سر ٹکرایا اور میرے کپڑے گھٹنوں تک تر ہوگئے۔ میری حالت دیکھ کر انہوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’اس راستے پر چلنے والے شاذ و نادر ہی بھیگے بغیر حاجی پیاؒ کے دربار تک پہنچتے ہیں۔ اب تو یہ موجیں خاصی پُرسکون ہیں۔ چاند چڑھا ہو تو لہریں اس راستے کے اوپر سے گزر رہی ہوتی ہیں، اور برسات کے موسم میں تو سمندر چڑھا ہونے کی وجہ سے اکثر یہ راستہ زیر آب ہی رہتا ہے اور زائرین کی مزار پر حاضری کا سلسلہ منقطع رہتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں، میں آٹھ سال پہلے اپنے والد کے ساتھ آیا تھا۔ ان دنوں مزار کی بیرونی عمارت، گیٹ اور احاطے کی تعمیر و توسیع کا کام آخر مراحل میں تھا۔ اس راستے پر بھی تازہ پلستر کیا گیا تھا‘‘۔
انہوں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اوہ، تو یہ شہر تمہارے لیے بالکل اجنبی نہیں ہے۔ بہت خوب!‘‘۔ پھر انہوں نے گفتگو کا رخ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جاری دورۂ ہندوستان کی طرف موڑ دیا۔ ’’یار ہماری یہ ٹیم تو لگتا ہے ہمارا تماشا بنواکر جائے گی۔ لے دے کر ایک حنیف محمد سے بیڑا پار لگانے کی امیدیں تھیں۔ کانپور ٹیسٹ میں وہ بھی ٹھس ہوگئے۔ نسیم الغنی، حسیب احسن اور جاوید جیسے کل کے لونڈے ہی ٹیم کو شرم ناک شکست سے بچانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ ورنہ تو لٹیا ڈوب گئی تھی‘‘۔
میں نے قدرے چونک کر پوچھا۔ ’’کان پور ٹیسٹ ہو چکا؟ کیا نتیجہ رہا؟‘‘۔
انہوں نے کہا۔ ’’پچھلے ٹیسٹ کی طرح بالکل غیر دل چسپ مقابلے کے بعد ڈرا۔ پاکستانی ٹیم ایک سو نواسی اوورز میں چیونٹی کی رفتار سے تین سو پینتیس رنز بناکر آؤٹ ہوئی تو ہندوستانی ٹیم ان سے بھی زیادہ بے زار کن بلے بازی کر کے ایک سو چورانوے اوور میں صرف چار سو چار رنز بنا پائی۔ گیند کرا کراکے پاکستانی بالرز کا بھرتا بن گیا۔ نسیم الغنی نے پچپن اور حسیب احسن نے چھپن اوور کرائے۔ حسیب کو تو پھر بھی پانچ وکٹیں مل گئیں۔ بیچارہ نسیم الغنی تو ایک سو نو رنز دے کر ایک ہی وکٹ لے پایا‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’اور تیز بالرز نے کیا تیر مارا؟‘‘۔
انہوں نے طنزیہ لہجے میں بتایا۔ ’’محمود حسین بے چارے کو تو چھیالیس اوورز میں دو وکٹیں مل بھی گئیں، فضل انکل چھتیس اوورز میں بمشکل منجریکر کو آؤٹ کر پایا۔ دوسری اننگ میں پاکستان کی تین وکٹیں صرف بیالیس رنز پر گر گئی تھیں۔ جاوید برکی اور والس میتھائس نہ اٹکتے تو سمجھو کام تمام تھا‘‘۔
بالآخر ہم حضرت حاجی علیؒ کے دربار کی سیڑھیاں چڑھ کر اونچے گیٹ سے اندر داخل ہوگئے۔ افتخار صاحب سیدھا حاجی پیاؒ کی تربت کی جانب گنبد والے ہال کی طرف بڑھے، جبکہ میں نے پہلے مزار کے احاطے میں واقع مسجد کے وضو خانے کا رخ کیا۔ میں نے عظیم بزر گ ہستی کی آخری آرام گاہ کے پاس پہنچ کر ادب سے سلام کیا اور سبز و سرخ چادروں میں پوشیدہ تربت پر پھول چڑھانے کے بعد پہلو میں کھڑے ہوکر درود و فاتحہ کا نذرانہ پیش کیا۔ افتخار صاحب نہایت محویت سے شاید تلاوت کر رہے تھے۔ ان کے باہر نکلنے کے کچھ دیر بعد میں بھی صاحبِ مزار سے رخصت کی اجازت طلب کر کے تربت والے ہال سے باہر آگیا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More