کراچی میں بچوں کے اغوا بڑھنے پر شہری خوفزدہ

0

اقبال اعوان
کراچی میں اغوا کی بڑھتی وارداتوں سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ اولڈ سٹی ایریا میں لی مارکیٹ کی رہائشی عمارت کی تیسری منزل سے ماں کے ہاتھوں 8 ماہ کی چھینی گئی بچی فائزہ تا حال بازیاب نہیں کرائی جاسکی ہے، جس سے پولیس کی نااہلی کا پول کھل گیا ہے۔ جبکہ شاہ فیصل کالونی میں بھی 9 سالہ بچی کی اغوا کی کوشش نے شہریوں کو فکرمند کر دیا ہے۔ قصور میں زینب کیس کے بعد ملک بھر میں جہاں بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، وہیں کراچی میں بھی شدید خوف و ہراس پھیلا تھا۔ اب ایک بار پھر بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات شہر میں بڑھنے لگے ہیں۔ پولیس محرم کے حساس مہینے میں سخت سیکورٹی اقدامات میں مصروف ہونے کا جواز بنا کر شہریوں کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں پہلے ہی بچوں کے اغوا کے حوالے سے کیس زیر سماعت ہے اور ایک ہفتے قبل چارج لینے والے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی پیشی ہوچکی ہے۔
کراچی میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کراچی پولیس جہاں ناکامی کی صورت میں وسائل کی کمی کا رونا رو رہی ہے، وہیں اس کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی جرائم پیشہ سے ملی بھگت کا پول بھی کھل رہا ہے۔ کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد 5 سال بعد وہی جرائم اسی پوزیشن پر آرہے ہیں، جو کراچی آپریشن سے قبل تھے۔ کار لفٹر گروپ نجی کار اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ سرکاری گاڑیاں بھی چھین رہے ہیں۔ مارکیٹوں کی دکانوں کو منظم انداز میں لوٹا جارہا ہے۔ شارٹ ٹرم اغوا کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ بھتہ خوری دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔ بڑھتے اسٹریٹ کرائم سے شہری پریشان تھے کہ بچوں کے اغوا اور زیادتی کی وارداتیں بھی دوبارہ شروع ہوچکی ہیں۔ کراچی کے 107 تھانوں کی پولیس جو وسائل اور نفری کم ہونے کا رونا روتی رہی ہے، اب محرم کے حساس ماہ کے دوران مجالس، امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں کی حفاظت پر مامور ہونے کا جواز پیش کر رہی ہے۔ کراچی پولیس میں کرپشن کا یہ حال ہے کہ سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی سمیت دیگر اعلیٰ افسران کے خلاف مقدمات کی سماعتیں ہو رہی ہیں۔ ایس ایس پی ویسٹ ڈاکٹر رضوان نے چارج لینے کے بعد ضلع ویسٹ پولیس کے 471 افسران و اہلکاروں کو دوسرے ضلعوں اور ہیڈ کوارٹرز میں بھیج دیا کہ یہ غیر قانونی کام کر رہے تھے اور جرائم پیشہ کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اس دوران جیل پولیس کے افسران و اہلکاروں کے جیلوں میں جرائم پیشہ عناصر سے رابطوں کے منظم نیٹ ورک کا پتا چلا یا گیا اور 82 اہلکاروں کے تبادلے کئے گئے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کے صفایا کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس خراب صورتحال میں سندھ کے نئے آئی جی ڈاکٹر کلیم امام نے ایک ہفتے قبل چارج سنبھال لیا ہے اور ساری صورتحال کو چیلنج سمجھ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کے چارج لیتے ہی اگلے دن سندھ ہائی کورٹ میں گمشیدہ بچوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران انہیں عدالت نے طلب کرلیا تھا۔ کراچی میں بچوں کے اغوا کے حوالے سے 23 بچوں کے والدین نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ پولیس ان کو بازیاب کرنے میں ناکام ہے۔ نئے آئی جی سندھ نے بھرپور انداز میں دوبارہ کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرادی تھی۔ تاہم پولیس اس حوالے سے بے بس نظر آتی ہے اور پولیس کے ذرائع کے بقول رواں سال شہر بھر کے مختلف تھانوں میں 151 بچوں کے گمشدہ ہونے کے حوالے سے رپورٹ کرائی گئی، جس میں 134 بچوں کی بازیابی ہوگئی، تاہم 17 تاحال لاپتہ ہیں۔ ادھر جس روز عدالت میں گمشدہ بچوں کے حوالے سے کیس کی سماعت تھی، اسی روز نیپیئر تھانے کی حدود لی مارکیٹ میں عین تھانے کے سامنے روڈ پار چار منزلہ عمارت میں 8 ماہ کی بچی کا اغوا کا واقع ہوا، جس نے شہریوں کو خوف زدہ کردیا۔ ایک برقع پوش عورت تیسری منزل پر رہائش پذیر خاتون سے اس کی گود میں موجود 8 ماہ کی بچی کو چھین کر فرار ہوگئی۔ واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی تاہم 5 روز گزرنے کے باوجود بچی بازیاب نہیں کرائی جاسکی ہے۔ نیپیئر تھانے کے ڈیوٹی افسر ریاض مغل کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد تفتیش کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل ساری نفری امام بارگاہوں، مجالس اور ماتمی جلوسوں کی سیکورٹی پر لگی ہے لہذا علاقے میں گشت کم ہورہا ہے۔ وہ سارے پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔
کراچی میں دو روز قبل دو بچے زیادتی کا نشانہ بن گئے تھے۔ الفلاح تھانے کی حدود ملیر ملت ٹاؤن کے رہائشی نظر حسین کے 4 سالہ بیٹے امان اللہ کو علاقے کے رہائشی وقاص نے چیز دلانے کے بہانے بلایا اور زیادتی کے بعد گھر کے باہر چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ بچے کے شور مچانے پر لوگ جمع ہوئے۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ نمبر 238/18 درج کیا اور وقاص کے فرار ہونے پر ملزم کے والد عباس کو گرفتار کرلیا ہے۔ جبکہ سچل تھانے کی حدود عبد اللہ شاہ غازی گوٹھ کے رہائشی 6 سالہ بچے عامر کو علاقے کے اسکول کے چوکیدار جابر ابڑو نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اغوا کیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ علاقہ مکینوں نے چوکیدار کو پکڑ کر تشدد کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ الفلاح میں ہی دوسرا واقع ہفتے کی دوپہر پیش آیا کہ ملت ٹاؤن میں رہائش پذیر دو بہنیں 9 سالہ فریحہ اور 11 سالہ سویرا گھر کے قریب نجی اسکول سے پڑھ کر گھر واپس آرہی تھیں کہ اس دوران ان کو دو نوجوان نظر آئے۔ سنسان گلی میں ایک نوجوان نے ان کو روکا اور چھوٹی بہن فریحہ کے منہ پر رومال رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم بڑی بہن سویرا نے شور کردیا۔ جس پر مذکورہ نوجوان کا دوسرا ساتھی بھاگ گیا اور وہ نوجوان وہاں آنے والے علاقے کے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا۔ علاقے والوں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا اور اس کو پولیس کے حوالے کردیا۔
چھیپا فاؤنڈیشن کے چیئرمین رمضان چھیپا کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہری بچوں کی حفاظت کے معاملے پر زیادہ توجہ دیں۔ چیز لینے اکیلا نہ بھیجیں۔ قریبی رشتے دار کے علاوہ کسی کے ساتھ نہ بھیجیں۔ بچوں کو اعتماد میں لیں اور ان کی باتیں غور سے سنیں۔
لی مارکیٹ سے اغوا بچی کے حوالے سے ایس ایس پی سٹی سمیع اللہ سومرو کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس نوعیت کا واقعہ نہیں ہوا۔ تفتیش کررہے ہیں۔ پولیس کو جلد کامیابی ملے گی۔ دوسری جانب الفلاح تھانے کے انچارج خالد ندیم بیگ کا کہنا تھا کہ 9 سالہ بچی فریحہ کے اغوا کی کوشش میں ملوث ملزم شیر خان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More