نذر الاسلام چودھری
خلائی تحقیق کے بھارتی ادارے اسرو کے سینئر سائنسدان نے انٹیلی جنس بیورو اور کیرالا پولیس کیخلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ مراعات اور تنخواہوں کے علاوہ معزول سائنسدان ’’ایس نامبی نرائے نن‘‘ کو ایک ہفتے کے اندر اندر 50 لاکھ روپے کی ادائیگی کرے اور ایک بہترین سائنسدان کیخلاف جعلی جاسوسی پلاٹ کے تحت کارروائی کرنے اور ان کا مستقبل تاریک کر دینے والے انٹیلی جنس اور پولیس افسران کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کیلئے تحقیقات کا بلیو پرنٹ تیار کرے۔ سپریم کورٹ نے سابق سپریم کورٹ جج ڈی کے جین کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی ہے، جو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر ایس نامبی نرائے نن کو پھنسانے والے اور ان کو پاکستانی جاسوسی ایجنٹ قرار دینے والے انڈین انٹیلی جنس بیورو اور پولیس افسران کیخلاف کارروائی کیلئے سفارشات پیش کرے گی۔ بھارتی عدالت میں دہائی دینے والے بھارتی براہمن سائنسدان نرائے نن کا دعویٰ تھا کہ بھارتی انٹیلی جنس اور کیرالا پولیس نے ان کا مستقبل تاریک کرنے کی دانستہ کوشش کی تھی اس لئے انہیں نا صرف رقم کی صورت میں اس پورے نقصان کی بھرپائی کی جائے بلکہ ان کیخلاف سازش رچنے والے افسران کا تعین کرکے ان پر مقدمہ چلایا جائے کیونکہ انہوں نے کبھی بھی ملک کیخلاف جاسوسی جیسی قبیح حرکت کا سوچا تک نہیں، لیکن اس سب کے باوجود ان کو اس سازش میں فٹ کیا گیا۔ انہیں ذلیل کیا گیا۔ شدید ترین تشدد کیا گیا اور مار پیٹ کر اس بارے میں اعتراف جرم کروایا گیا لیکن وہ عدالتی فورم پر اس تشدد والے بیان سے مکر گئے اور پولیس اور انٹیلی جنس (آئی بی) کے متعلقہ افسران کیخلاف ہائی کورٹ کے احکامات پر سی بی آئی کے سینئر افسران نے تحقیق کی تو یہ راز کھلا کہ معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ مالدیپ سے بھارت میں سیاحت کیلئے آنے والی دو خواتین سیاسی جماعتوں کی ہڑتال اور گاڑیوں کی بندش کے سبب بر وقت بھارت نہیں چھوڑ سکیں تھیں، جس کی وجہ سے ان کو پولیس آفس میں تفتیش کیلئے بلوا لیا گیا اور ان میں سے ایک خاتون کی ڈائری سے مذکورہ سائنسدان کے گھر کا ٹیلی فون نمبر ملا، جس کی پاداش میں نا صرف دونوں مالدیپی خواتین کو پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھا گیا، بلکہ اسرو کے سینئر سائنسدان اور کرائیو جینک انجنوںکے پروجیکٹ کے خالق/ ڈائریکٹر نرائے نن کو بھی غدار قرار دیا گیا اور ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد نا صرف کیرالا پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کی مشترکہ کارروائی میں معروف سائنسدان کو گرفتار کرلیا گیا بلکہ پچاس روز کے ریمانڈ میں برہنہ کرکے رکھا گیا اور روزانہ ان کی جم کر پٹائی کی جاتی۔ اسی طرح حساس راز پاکستانی اداروں کو فروخت کرنے کی گھڑی ہوئی کہانی سنا سنا کر اعتراف جرم کروانے کا دبائو ڈالا جاتا رہا۔ بھارتی جریدے سماچار نے بتایا ہے کہ 1994ء میں خلائی تحقیق کے بھارتی ادارے ’’اسرا‘‘ کے سینئر سائنسدان نرائے نن پر بھارتی انٹیلی جنس آئی بی نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ایک ساتھی سائنسدان کے ساتھ مل کر مالدیپ کی انٹیلی جنس کو خلائی راکٹس کے راز اور بلیو پرنٹس لاکھوں ڈالرز میں بیچنے کی پلاننگ کی تھی اور اس ضمن میں مالدیپ سے بھارت میں سیاحت کیلئے آنے والی دو مسلمان خواتین کے توسط سے سارے رازوں کو مالدیپ بھیجوانے کا بندوبست کیا تھا۔ واضح رہے کہ سائنسدان نرائے نن نے 80 کی دہائی میں بھارتی قوم کو ’’فیول راکٹس‘‘ بنا کر دئے تھے جس پر ان کو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا تھا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جھوٹے الزامات کے تحت رات کے اندھیرے میں بھارتی انٹیلی جنس آئی بی نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔ بعد ازاں آئی بی نے دعویٰ کیا کہ خلائی تحقیق کے بھارتی ادارے کے حساس ترین راز مالدیپی انٹیلی جنس کے توسط سے روایتی دشمن یعنی پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کو فروخت کئے جارہے تھے، جسے بھارتی میڈیا نے بھی خوب واویلا کیا۔ بھارتی جریدے ماتھر بھومی کی رپورٹ میں اس سنگین واقعہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کورٹ کے ججوں نے رولنگ دی ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس کا ہوا کھڑا کرکے کسی کیخلاف بھی کارروائی کرنے کا انٹیلی جنس یا پولیس افسران کو کوئی حق نہیں ہے۔ بھارتی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ جب ابتدائی اسٹیج پر کی جانے والی تحقیقات میں ادارے سائنسدان کو دیئے گئے لاکھوں ڈالرز کو ریکور ہی نہیں کرپائے یا ان کا کوئی سراغ نہیں لگا پائے تو اس کیس کو وہیں ختم کردیا جانا چاہئے تھا لیکن اس کیس میں انٹیلی جنس بیورو او ر پولیس کے افسران کیخلاف اب سخت کارروائی کی جائے اور ان کو جھوٹا جاسوسی پلاٹ بنانے اور اس کے تحت ایک سائنس داں کی زندگی اور کیریئر کو تباہ کرنے کے الزام میں قید کیا جانا ہوگا۔ اپنے ایک انٹرویو میں نرائے نن کا ماننا تھا کہ بھارت میں پاکستان اور آئی ایس آئی کا نام دہشت کی علامت ہے اور کسی بھی شہری یا معزز فرد کو ذلیل کرنا ہو تو اس پر پاکستانی ایجنٹ کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔ یہی کچھ میرے ساتھ ہوا ہے۔ بھارتی لکھاری کٹی رنگا پلائی نے بتایا ہے کہ 1994ء میں مالدیپ سے دو خواتین فوزیہ اور مریم مالدیپ سے سیاحتی مقصد کیلئے کیرالا آئی تھیں اور ہڑتال کی سبب اسی روز اپنی روانگی کو یقینی نہیں بنا سکی تھیں اور اس سلسلہ میں پولیس اور انٹیلی جنس برانچ نے ان کو طلب کرکے تفتیش کی تھی اور بظاہر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ ویزا کے اختتام پر بر وقت واپس کیوں نہ گئیں اسی تفتیش میں ایک پولیس افسر کو فوزیہ حسن کی ڈائری کا معائنہ کرنے کا موقع ملا جس پر ایک فون نمبر لکھا تھا۔ یہ لینڈ لائن نمبر نرائے نن کا تھا، جس پر انٹیلی جنس بیورو نے بھونچال برپا کر دیا۔ فوزیہ اور مریم بی بی کو گرفتار کرلیا گیا جب کہ اسی شب انٹیلی جنس بیورو کی پولیس کے ساتھ ملی ٹیموں نے اسرو کے سائنس دانوں نرائے نن اور ششی کمارن کو ان کے گھروں سے اُٹھا لیا اور دونوں کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ اور جاسوس بنا ڈالا۔ مقامی جریدے کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں لاچاری اور بے بسی کا اظہار کرنے والے سائنسداں نرائے نن نے کہا کہ میری ہی انٹیلی جنس اور میری ہی پولیس نے مجھے ملک دشمن اور غدار بنا ڈالا۔ حقیقت میں، میں بے قصور تھا، مجھے براہ راست ٹارگیٹ کیا گیا، میرا مستقبل تباہ ہوگیا۔ ہر کوئی اور میرے رشتے داروں اور احباب نے مقاطعہ کرلیا کہ یہ پاکستانی جاسوس ہے۔ جب میڈیا کے نمائندے نے نرائے نن سے یہ استفسار کیا کہ آیا آپ کے گھر کا فون نمبر ایک غیر ملکی سیاح کی ڈائری میں کیوں کر پہنچا تو ان کا کہنا تھا میری اہلیہ ایک لیڈی ڈاکٹر ہیں، جن کے کلینک پر مریم نامی سیاح اپنا مرض بتانے اور دوا لینے آئی تھیں اور ان کو میری اہلیہ یہ فون نمبر اس لئے دیا تھا کہ اگر دوا کارگر نہ ہو یا طبیعت زیادہ خراب ہوجائے تو ایمر جنسی میں ٹیلی فون پر رابطہ کرلیں، لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا۔ انٹیلی جنس یا پولیس کا کسی بھی سطح کا افسر کچھ سننے یا سمجھنے پر ہی تیار نہ تھا۔ نرائے نن نے بتایا کہ صرف دو برسوں میں 1996ء میں پولیس کی اسپیشل ٹیم سمیت انڈین پریمئر تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کی اعلیٰ سطح کی ٹیم نے مجھے اور ساتھی سائنس داں کمارن کو بے قصور قرار دیا اور انٹیلی جنس اور پولیس کے متعلقہ کیخلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایات دیں، لیکن اب تک ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکا، جس پر میں نے 1998ء میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں انصاف ملنے میں مجھے چوبیس قیمتی سال ضائع کرنے پڑے۔ میں انصاف کی تلاش میں بڈھا ہوگیا ہوں لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں ان قانون شکن افراد اور افسران کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں۔ ادھر دوسری جانب مالدیپی مسلم خواتین فوزیہ اور مریم کو الزامات جھوٹے ثابت ہوجانے کے باوجود آٹھ ماہ تک قید رکھا گیا اور بعد ازاں مالدیپ حکام کے حوالے کر دیا گیا۔