مرزا عبدالقدوس
پانچ سال قبل راولپنڈی میں دس محرم الحرام کو سانحہ جامعہ تعلیم القرآن میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوگئے تھے، جس کا مقدمہ تقریباً ایک سو نامزد ملزمان کے خلاف درج ہوا۔ بعد میں اس مقدمے کے مدعی مفتی امان اللہ اور ایک اہم گواہ حافظ محمود کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ جبکہ سانحہ تعلیم القرآن اور مدعیان کے قتل کے مقدمات اب بھی زیر التوا ہیں۔ کوئی ایک ملزم بھی اس وقت جیل میں نہیں۔ کسی نے عبوری ضمانت کرائی تو پھر اس کی توثیق کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔ کسی نے مفروری کے بعد ضمانت کرالی۔ اب سانحہ تعلیم القرآن کے چھیانوے ملزمان ضمانت پر ہیں، جبکہ انیسں ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں۔ اسی طرح اس مقدمے کے مدعی مفتی امان اللہ اور حافظ محمود کے دہرے قتل میں ملوث نامزد ملزمان بھی ضمانتوں پر ہیں یا مفرور ہیں۔ اس دہرے قتل کیس میں نامزد ایک ملزم امین شہیدی نے ایک دفعہ عبوری ضمانت کرائی، جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ لیکن انہوں نے بھی عدالتوں سے رجوع نہیں کیا۔
واضح رہے کہ پندرہ نومبر 2013ء (دس محرم الحرام) کو راولپنڈی کے راجہ بازار میں قائم مدرسہ تعلیم القرآن پر کچھ شر پسندوں نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ حملے میں قرآن کریم اور دیگر مقدس دینی کتب بھی جلا دی گئی تھیں۔ جبکہ مدرسے کے کمروں اور نیچے موجود کپڑے کی مارکیٹ کو آگ لگادی گئی تھی، جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے مدرسہ دوبارہ تعمیر کرایا اور جامعہ تعلیم القرآن کے مہتم اعلیٰ مولانا اشرف علی اور دیگر علمائے کرام کو دوبارہ تعلیمی سلسلے کے احیا کے لئے خاصا عرصہ تگ و دو کرنا پڑی۔ مولانا اشرف علی کی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا اور جامعہ تعلیم القرآن پر حملے کے کیس کے مدعی مولانا اشرف علی کے جواں سال بیٹے ممتاز عالم دین مفتی امان اللہ کو بھی فائرنگ کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا۔ ان کے بعد ان کیسز کی ذمہ داری مولانا شاکر محمد نے سنبھالی۔ ان کی طبعی موت کے بعد اب ممتاز عالم دین مولانا حسین علی قانونی محاذ پر ان پر دو کیسز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
مولانا حسین علی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کیسز میں اب تک پیش رفت نہیں ہوسکی۔ گرفتار ملزمان چاہے وہ مقامی یا غیر مقامی تھے، سب نے ضمانت حاصل کرلی یا اشتہاری ہونے کے باوجود آزاد پھر رہے ہیں۔ اس کی وجہ موجودہ نظام اور متعلقہ ادارے ہیں۔ اب بھی زیر دفعہ 302 کے نامزد ملزمان جن میں امین شہیدی بھی شامل ہیں، اشتہاری ہیں۔ لیکن گرفتار نہیں کئے جارہے۔ چھیانوے (96) ملزمان ضمانت پر ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’کچھ عرصہ قبل سیکورٹی سے متعلق ایک ادارے نے جس کا سانحہ تعلیم القرآن سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا، ایک رپورٹ جاری کی کہ سانحہ تعلیم القرآن میں کوئی اور نہیں بلکہ خود ان کے مسلک کے لوگ ملوث تھے۔ اس پر شدید احتجاج کیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ میں اس رپورٹ کے خلاف رٹ دائر کی گئی۔ جسٹس عباد الرحمان لودھی نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اس ادارے کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنا کام کرے۔ لیکن ہمارے کیس کو مذکورہ بالا رپورٹ سے کافی نقصان ہوا۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملزمان نے ضمانتیں کرالیں اور جن اٹھارہ انیس ضمانتیں نہیں ہو سکیں، وہ مفرور ہیں۔ قانون ان ملزمان کو کٹہرے میں لانے سے قاصر نظر آتا ہے اور ہم اس صورت حال میں بے بس ہیں۔ جس حد تک ممکن ہے قانونی چارہ جوئی کا اپنا حق استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں انتظامیہ کی جانب سے جھوٹی تسلیاں دی جاتی ہیں اور ہم پر دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے کہ تعاون کریں‘‘۔
ذرائع کے مطابق جامعہ تعلیم القرآن کو صرف دو سیکورٹی اہلکار دیئے گئے ہیں، جبکہ ایک سیکورٹی اہلکار کی ڈیوٹی مولانا اشرف علی کے ساتھ ہے۔ کل آر پی او اور دیگر اعلیٰ پولیس افسران نے جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار کا دورہ کیا اور سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر موجود متعلقہ تھانہ سٹی کے ایس ایچ او انسپکٹر سلطان قمر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور دیگر ادارے پوری طرح متحرک اور چوکس ہیں اور محمر و عاشورہ کے دوران سیکورٹی کے جامع انتظامات کئے گئے ہیں۔
جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں محرم الحرام کے دوران جامع سیکورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے مطابق پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار اور افسران سیکورٹی ڈیوٹی پر مامور ہوں گے۔ مجالس اور جلوس کے راستوں پر اضافی سیکورٹی تعینات کی جائے گی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں شہروں میں یکم سے دس محرم کے دوران موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی عمر جہانگیر کے مطابق عاشورہ کے دوران سیکورٹی اداروں کے علاوہ دیگر متعلقہ ادارے مثلاً اسپتال، سول ڈیفنس، ریسکیو 1122 وغیرہ بھی الرٹ رہیں گے۔ مجالس اور جلوس کے داخلی راستوں اور اہم چوراہوں پر اضافی سیکورٹی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ جن کی سینٹرل مانیٹرنگ کنٹرول سے مانیٹرنگ ہوگی۔ اسلام آباد میں ایک سو ننانوے مقامات کو زیادہ حساس قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول پورے راولپنڈی ڈویژن میں عاشورہ کے دو دن 3571 مجالس ہوں گی، جہاں صورت حال کو مکمل طور پر پُرامن رکھنے اور امن و امان کے لئے ضلعی انتظامیہ نے انتظامات مکمل کرلئے ہیں۔ جڑواں شہروں کی ضلعی انتظامیہ نے اپنے اپنے طور پر تمام مسالک کے ممتاز علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر ملک کی فضا کو پُر امن رکھنے اور متنازعہ تقاریر سے گریز کرنے کی درخواست کی ہے، جس کا انہیں مثبت جواب ملا ہے۔