عباس ثاقب
میں نے افتخار صاحب کو ایک طرف کھڑے پایا۔ مجھے دیکھ کر وہ درگاہ کے پہلو والے دروازے کی طرف بڑھے اور ہم چار دیواری کے باہر طویل پختہ چبوترے پر پہنچ گئے، جہاں سامنے تاحد نظر سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہاں بہت سے دیگر لوگ بھی وہ پُرشکوہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔
’’چھوٹے بھیا، تم نے ہماری امیدیں بہت بڑھادی ہیں‘‘۔ افتخار صاحب نے میرے پہلو میں کھڑے ہوئے کہا۔ ’’اس مرحلے پر ہمیں غیر معمولی محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘‘۔
میں نے بھی دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’میں اس کی نگرانی کروں گا۔ کوئی مشکوک بات محسوس ہوئی تو گردن دبوچ لوں گا‘‘۔
انہوں نے قدرے مضطرب لہجے میں کہا۔ ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اپنے افسروں کو یہ معاملہ بتادیا یا یہ نظروں میں آگیا تو ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوگی‘‘۔
میں نے ان کے خدشے کی تائید کی۔ ’’میں نے اسے انتہائی احتیاط کی ہدایت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے متعلقہ فائلیں اکٹھی کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ تمام فائلیں اکٹھی ہوگئیں تو فوٹو گرافی میں صرف دو تین گھنٹے لگیں گے۔ اس کے بعد اس کے باس نیل کنٹھ کے دفتر سے معلومات چرانے کا خطرناک مرحلہ باقی رہ جائے گا‘‘۔
انہوں نے میری بات پر غور کیا اور پھر مضطرب لہجے میں کہا۔ ’’خطرہ وہی ہے۔ اگر یہ پکڑا گیا تو ہماری ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ ہم مزید خطرہ مول لے کر اس سے روز کی روز معلومات حاصل کر کے اپنے قبضے میں لیتے رہیں۔ میں انشاء اللہ کل تک اس کیمرے کے لیے اضافی فلموں کا بندوبست کرلوں گا۔ تم اسے کہو کہ فائلیں اکٹھی کر کے ایک ساتھ فوٹو گرافی کرنے کے بجائے روز اپنی اکٹھی کی ہوئی فائلوں کی تصویریں بنائے اور رات کو کیمرا تمہارے حوالے کر دے۔ وہ کیمرا نئی فلم ڈال کر صبح سویرے اسے واپس کر دیا جائے گا۔ اس طرح ہمارے بالکل خالی ہاتھ رہ جانے کا خطرہ ٹل جائے گا اور روز ہمارے مطلب کی کچھ معلومات ہم تک پہنچ جائیں گی‘‘۔
میں نے ان کی بات پر غور کیا اور پھر کہا۔ ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں ابھی جاتے ہوئے اسے ہدایت دے دوں گا اور کل سے روز رات کو اس کے گھر جاؤ ں گا۔ آپ اسلم کو کہہ دیجیے کہ وہ مجھ سے کیمرا لے کر صبح سویرے پہنچا دیا کرے۔ بس یہ دعا کیجیے کہ کموڈور نیل کنٹھ جلد از جلد دلّی کے دورے پر چلا جائے، تاکہ سب سے مشکل مرحلہ بھی مکمل ہو سکے‘‘۔
انہوں نے کہا۔ ’’اس کے وہاں پکڑے جانے کا خطرہ واقعی بہت سنگین ہے۔ اسی لیے اس سے روزانہ معلومات اگلوانے میں ہی عقل مندی ہے‘‘۔
ہم مزید کچھ دیر وہاں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ مغرب کا وقت قریب آنے پر ہم دونوں تقریباً پانچ سو گز طویل بھیگے ہوئے راستے پر ساحل کی طرف چل پڑے۔ اس وقت تک سمندر کی سطح نسبتاً بلند ہو چکی تھیں اور درگاہ سے واپس جانے والوں کا ہجوم بھی بڑھ گیا تھا۔ ہم دونوں نے باہمی فاصلہ بڑھا لیا تھا اور ایک دوسرے سے لا تعلقانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ میں افتخار صاحب کے مقابلے میں تیز رفتاری سے چلتا ہوا پہلے کنارا مسجد تک پہنچ گیا اور سیدھا اپنی ٹیکسی کا رخ کیا۔
میں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہی تھی کہ حلیے سے ہندو نظر آنے والے ایک چھوٹے سے کنبے نے چیمبور پہنچانے کی فرمائش کی۔ اپنی منزل سے بالکل الٹ رخ پر اتنا طویل فاصلہ کرنے میں مجھے کافی وقت لگ گیا۔ چنانچہ انہیں چھوڑنے کے بعد میں نے مزید سواریاں اٹھانے کے بجائے لگ بھگ اسی روٹ سے واپسی کا سفر اختیار کیا۔
میں کولابا میں واقع نیوی نگر میں سچن بھنڈاری کے گھر پہنچا تو رات کا پہلا پہر چل رہا تھا۔ وہ مجھے غیر متوقع طور پر دیکھ کر کچھ حیران نظر آیا اور بولا ’’مجھے دو دن…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’پروگرام بدل گیا ہے۔ اب تم روز فوٹو گرافی کرو گے اور شام کو کیمرا میرے حوالے کرو گے، جو صبح تمہیں لوٹا دیا جائے گا‘‘۔
اس نے میرے حکم کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی۔ لیکن میں نے سختی سے بتا دیا کہ بلاچوں و چرا بات ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں نے اگلے روز سات بجے اس کے پاس پہنچنے کی اطلاع دی اور اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ اگلی صبح میں نے اسلم کو پیغام دیا کہ وہ شام ساڑھے سات سے آٹھ بجے کے درمیان کولابا کے ایک مخصوص ڈھابے پر میرا انتظار کرے، جہاں میں کیمرا اس کے حوالے کر دوں گا اور اگلی صبح ٹھیک ساڑھے سات بجے اسی جگہ اسے وہ کیمرا مجھے لوٹانا ہوگا۔ اگلے دن میں معمول کے مطابق ٹیکسی لے کر نکلا۔ اب میں نہایت اعتماد کے ساتھ ٹیکسی چلاکر معقول آمدنی کما رہا تھا۔ شام کو میں احتیاطاً مقررہ وقت سے گھنٹا بھر پہلے سچن کے کوارٹر کے سامنے سے گزرا۔ مجھے وہاں کوئی مشکوک سرگرمی نظر نہیں آئی۔ سچن کی فئیٹ گاڑی گھر کے احاطے میں موجود تھی۔ میں نے ایک طویل چکر لگایا اور واپس آکر گیٹ پر گاڑی روک دی۔ میرے پہنچنے کے مقررہ وقت میں ابھی چالیس پینتالیس منٹ باقی تھے۔ لیکن وہ یقیناً اضطراب کے عالم میں میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ لہٰذا پہلا ہارن سنتے ہی وہ گیٹ پر پہنچ گیا۔
وہ شاید سڑک پر ہی براؤن لفافے میں لپٹا سگریٹ کیس میرے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میں نے کہا۔ ’’اندر چلو!‘‘۔ قدرے ہچکچاہٹ کے بعد اس نے چھوٹا گیٹ کھولا اور مجھے گھر کے اندر لے گیا۔ مجھے وہاں کسی اور کی موجودگی کے آثار نظر نہ آئے، البتہ کھانے کی میز پر رکھی جانی واکر بلیک لیبل اسکاچ کی بوتل میری نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ لیکن میں نے اسے ان دیکھا کر دیا اور کیمرے والا لفافہ وصول کر کے پوچھا۔ ’’سب ٹھیک ہے ناں؟ کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی؟‘‘۔ (جاری ہے)0
٭٭٭٭٭