افغانستان میں حزب اسلامی کےخلاف انتخابی اتحاد ٹوٹ گیا

0

محمد قاسم
افغانستان کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ افغان صدر کے سابق مشیر برائے سلامتی امور حنیف اتمر نے حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار سے ملاقات کے بعد اپریل 2019ء میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں میں نہ صرف حصہ لینے کا اعلان کر دیا، بلکہ پارلیمانی انتخابات کیلئے حزب اسلامی کے خلاف بننے والے شمالی اتحاد کے الائنس کو بھی توڑ دیا ہے۔ حنیف اتمر نے سابق اسپیکر یونس قانونی اور حزب وحدت کے استاد محقق کو نائب صدور نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ انتخابی مہم کیلئے ٹیم بنانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بھی تیزی آرہی ہے۔ مذاکرات کیلئے طالبان وفد دبئی پہنچ گیا ہے۔ جبکہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی کی صورت میں جنگ بندی کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
آئندہ صدارتی انتخابات کے بعد افغانستان میں ایک ایسی مضبوط حکومت کے قیام کی کوششیں جاری ہیں، جو قیام امن کیلئے افغان طالبان کے ساتھ نہ صرف معاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، بلکہ امریکی انخلا کیلئے بھی راستہ ہموار کر سکے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے میں بھی مدد گار ہو۔ اس حوالے سے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے سابق مشیر قومی سلامتی حنیف اتمر، جنہوں نے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے ساتھ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، گزشتہ روز حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھ ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق دو گھنٹے کی ون ٹو ون ملاقات کے بعد حنیف اتمر نے کابل میں اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا کہ وہ آئندہ صدارتی الیکشن میں بطور صدارتی امیدوار حصہ لے رہے ہیں اور انہوں نے شمالی اتحاد کے رہنما اور سابق اسپیکر پارلیمان یونس قانونی کو نائب صدر اول اور حزب وحدت کے استاد محقق کو نائب صدر دوم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یونس قانونی اور استاد محقق کو نائب صدور نامزد کئے جانے کے بعد شمالی اتحاد کا حزب اسلامی کے خلاف پارلیمانی انتخابات کیلئے تشکیل دیا جانے والا اتحاد بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے اور جنبش ملی نے افغان صدر سے درخواست کی ہے کہ شمالی افغانستان میں موجودہ حالات میں انتخابات نہیں ہو سکتے، لہذا الیکشن ملتوی کئے جائیں۔ تاہم افغان صدر نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے اور افغان وزارت داخلہ کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے جس میں انتخابی دفاتر کیخلاف احتجاج کرنے اور انہیں بند کرنے والوں کیخلاف فورس استعمال کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یونس قانونی اور استاد محقق شمالی اتحاد کے وہ اہم رہنما ہیں، جنہوں نے حزب اسلامی کیخلاف انتخابی اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے استاد عطاء محمد اور عبدالرشید دوستم کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم حنیف اتمر نے اس اتحاد کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اسلامی کے مخالفین افغان صدر پر حزب اسلامی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں کسی غیر جانبدار شخص کو صدر بننا چاہیے جو افغان عوام کو متحد کردے اور امریکہ کو انخلا کیلئے راستہ فراہم کرے۔
دوسری جانب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کوششوں میں تیزی آئی ہے اور افغان طالبان کا ایک وفد دبئی پہنچ گیا ہے، جو 22 ستمبر کو متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں اور امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوگا۔ جبکہ 28 اور 29 ستمبر کو قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ بارہ رکنی وفد میں افغان طالبان کے اہم رہنما شامل ہیں، جو امریکہ کو اپنی حتمی شرائط سے آگاہ کریں گے۔ دوسری جانب افغان وزارت داخلہ نے افغان طالبان قیدیوں کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔ اگر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت ہوئی تو پہلے مرحلے میں طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی کی صورت میں جنگ بندی کا اعلان کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ اگر سنجیدگی سے مذاکرات کرتا ہے تو طالبان کی جانب سے لچک دکھائی جائے گی۔ افغان طالبان کا وفد افغانستان کے پاسپورٹ پر سفر کر رہا ہے، انہیں دبئی اور قطر کے ویزے جاری کئے گئے ہیں، جس کی درخواست افغان حکومت نے کی تھی۔ وفد میں شامل ارکان کے قریبی ذرائع کے مطابق افغان طالبان کا واضح موقف ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں فوجی قیام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ البتہ امریکہ اپنے سفارتی عملے کو جتنا بڑھانا چاہتا ہے، طالبان انہیں تحفظ دینے کیلئے تیار ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امریکی حکام طالبان کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج کو وہ کسی آپریشن کیلئے استعمال نہیں کریں گے بلکہ ایک ہزار کے قریب فوجیوں کو صرف امریکی تنصیبات اور سفارتی عملے کی سیکورٹی کیلئے رکھیں گے۔ ذرائع کے بقول پانچ سال قبل طالبان امریکہ کو افغانستان میں کچھ اڈوں پر اپنی فوج رکھنے کی اجازت دینے پر تیار تھے۔ لیکن اب وہ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ کسی بھی صورت افغانستان میں امریکیوں کو اڈے دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More