مشرف- الطاف-زرداری – ترین- علیم خان بھی زد میں آئیں گے- ماہرین
لندن (نمائندہ امت ) برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے اعلان کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانی اہم افراد کے مستقبل کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا برطانیہ ان مطلوب افراد کو پاکستان کے حوالے کرے گا یا نہیں۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر برطانیہ میں موجود قانونی ماہرین نے نمائندہ امت کو بتایا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان حتمی معاہدہ ہو گیا تو سلیکٹڈ (Sellected) انصاف نہیں ہو گا بلکہ برطانہ میں سب کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ نواز شریف کے بیٹوں حسن و حسین اور سمدھی اسحاق ڈار کے ساتھ سابق فوجی آمر پرویز مشرف، سابق صدر آصف زرداری ۔متحدہ کے بانی الطاف حسین سمیت تحریک انصاف کے رہنما ؤں جہانگیر ترین، علیم خان اور کئی دیگر اہم شخصیات بھی زد میں آئیں گی تاہم یہ ایک بہت لمبا اور تھکادینے وال مرحلہ ہو گا جس کے بعد جا کر کسی کیس کا فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔ معروف برطانوی قانون دان بیرسٹر صبغت الله قادری نے نمائندہ امت کو بتایا کہ اس سے قبل پاکستان یکطرفہ طور پر برطانیہ کو مطلوب کچھ افراد حوالے کر چکا ہے اور اس میں گورنر پنجاب چوہدری سرور جو کہ اس وقت برطانوی ممبر پارلیمنٹ تھے نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی اس حوالے سے ایک یاداشت پر دستخط کر چکے ہیں جو قیدیوں کے بارے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پر دنیا بھر سے دباؤ تھا کہ برطانیہ کرپٹ لوگوں کی جنت ہے جس کے بعد برطانوی حکومت نے اس حوالے سے جنوری 2017ء میں نیا قانون متعارف کرایا تھا جس کے تحت آمدن سے زیادہ رقم کے حوالے سے حکام کو آگاہ کرنا پڑے گا کہ وہ یہ رقم کہاں سے لے کر آتے ہیں۔برطانوی پولیس کے پاس اب اسی طرح کے خصوصی اختیارات ہیں جو پاکستان میں NAB کے پاس ہیں۔ اس قانون کے تحت اگر کسی شخص پر الزام ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہو گاکہ اس نے یہ رقم کیسے حال کی، مطلب بار ثبوت اب اس شخص پر ہو گا جس پر الزام لگایا گیا ہو گا۔بیرسٹر امجد ملک کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ اگر حکومت پاکستان اس حوالے سے کوئی قدم اٹھاتی ہے تو یہ ایک بہت تھکا دینے والا اور لمبا مرحلہ ہو گا۔ حکومت پاکستان کو سب سے پہلے برطانوی وزیر داخلہ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان شخصیات کے خلاف ثبوت موجود ہیں اور یہ لوگ کرمنل ایکٹوٹی میں ملوث رہے ہیں۔ اور اگر وزیر داخلہ ان تمام تر ثبوتوں پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو پھر وہ برطانوی عدالت کو درخواست کر سکتے ہیں کہ پاکستان نے یہ بندہ مانگا ہے اور اس کے خلاف مذکورہ الزامات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام تر صورت حال کے بعد کیس عدالت میں چلا جائے گا اور پھر فیصلہ عدالت کرے گی اور اس صورت حال میں تمام تر ثبوت پاکستان کو فراہم کرنا ہوں گے۔ حسن، حسین اور اسحاق ڈار کی حوالگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حسن نواز برطانوی شہری ہیں اور وہ کبھی پاکستان عہدے پر بھی نہیں رہے تو اس حساب سے ان کی حوالگی پاکستان کو ممکنہ طور پر نہیں ہو سکتی جبکہ حسین نواز کے پاس بھی اگر چہ برطانوی پاسپورٹ نہیں لیکن وہ یہاں کے مستقل رہائشی ہیں اور پاکستانی حکام کو ثابت کرنا پڑے گا کہ انہوں نے پاکستان میں کون سا قانون توڑا ہے اور اگر ان کی کوئی جائیداد ان کے دادا کی طرف سے دی گئی ہے تو اس میں حکومت پاکستان کے قانون کی کہاں خلاف ورزی ہوئی ہے۔دوسری جانب اسحاق ڈار کے حوالے سے حکومت پاکستان کے پاس صرف ایک مسئلہ ہے کہ وہ عوامی عہدے پر رہے ہیں ان پر کیسز ہیں اور وہ NAB کو مطلوب ہیں تاہم اس تمام تر صورت حال میں بھی برطانیہ ان کو پاکستان کے حوالے نہیں کر سکتا صرف اتنی مدد کرے گا کہ اسحاق ڈار عدالتی کارروائی میں حصہ لیں۔ امجد ملک کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت اسحاق ڈار پاکستان ہائی کمیشن میں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی میں اپنا بیان ریکارڈ کروا سکتے ہیں اس سے قبل منصور اعجاز، میمو گیٹ کیس میں رابرٹ ریڈلے، اور کئی دیگر لوگ پاکستانی ہائی کمیشن میں ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستانی عدالت میں اپنا اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملزم کی کسی دوسرے ملک حوالگی کے لئے عدالت کے پاس 2 اہم پوائنٹ ہوتے ہیں جن میں سے ایک ملزم کے ساتھ انصاف ہو گا اور دوسرا یہ کہ اسے سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ یہی وجہ رہی ہے کہ اب تک متحدہ قائد الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جا سکا یا اس حوالے سے کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں قائم مقدمے کا فیصلہ بھی ان افراد کے مستقبل کے حوالے سے اہم ہوگیا ہے۔اور اگر ممکنہ طور پر یہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو پھر حکومت پاکستان اس بنیاد پر بھی برطانوی حکومت کے پاس اپنا کیس لے کر آسکتی ہے کہ کرپشن میں ملوث ان افراد کے خلاف ہماری عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے اور اب برطانیہ ان متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ جس کے بعد برطانوی ہائی کورٹ میں سول استغاثہ دائر کرنا پڑے گا اور پھر عدالت میں ان افراد کیخلاف ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔