اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت نے مالی سال 2018.19 کے باقی 9ماہ کیلئے بجٹ ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہیں۔ ترمیمی بجٹ کے تحت لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز و سگریٹ، پان، چھالیہ، پنیر، دودھ، شہد سمیت 5900 درآمدی اشیا پر ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں 250ارب کی کٹوتی کا اعلان کیا گیا ہے۔ برآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ہمارا ہدف غریب کو بچانا و معیشت کو کھڑا کرنا ہے، تاکہ قرضوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ نان فائلرز کو گاڑیوں اور املاک کی خریداری کی اجازت دیدی ہے۔ نان فائلرز کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.4 سے بڑھا کر 0.6 فیصد کردیا گیا ہے۔ ای او بی آئی کے 85 فیصد پنشنرز کی پنشن میں فوری طور پر 10فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔کراچی کو50 ارب کے خصوصی فنڈز جاری ہوں گے۔اسلام آباد، فاٹا اضلاع سمیت تمام وفاقی علاقوں میں خیبر پختون طرز پر صحت کارڈ جاری ہوں گے، جس کے تحت فی خاندان5 لاکھ 40ہزار کی رقم علاج کیلئے مختص ہوگی۔ کم آمدنی والوں کیلئے ٹیکس استثنیٰ برقرار رہے گا، جبکہ وزیر اعظم، وزرا اور گورنروں کو مختلف معاملات پر حاصل ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ 2013 میں نواز لیگ کی حکومت آئی تو بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تھا۔ نواز لیگ کی حکومت 6.6 فیصد کا ہی بجٹ خسارہ چھوڑ کر گئی۔ 3ہفتوں کے دوران ٹیکس چوروں سے 92ارب وصول کر کے خزانے میں جمع کرا دیئے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے مالی سال2018.19کے باقی 9ماہ کیلئے بجٹ ترامیم قومی اسمبلی میں پیش کردی ہیں۔ اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس میں جاری مالی سال کے باقی 9 ماہ کیلئے ترمیمی بجٹ پیش کرنے کے موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ5 ہزار آئٹمز پر کسٹم ڈیوٹی بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشیائے تعیشات میں شامل ہیں۔ 900درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ فوری طور پر ایک لاکھ ٹن کھاد درآمد کی جائے گی اور اس پر سبسڈی دی جائے گی۔ کھاد کی مقامی پیداوار بڑھانے کیلئے گیس بھی دی جائے گی۔ خیبر پختون میں متعارف کرائے گئے صحت کارڈ تمام وفاقی علاقوں، اسلام آباد و فاٹا اضلاع میں فوری متعارف ہوگا، جس کے تحت فی خاندان کو 5لاکھ 40ہزارکی صحت انشورنس دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے پنجاب حکومت کو بھی بجٹ میں اس منصوبے کو متعارف کرانے کا حکم دیا ہے۔ محنت کشوں کے گھروں کی تعمیر کیلئے فوری طور پر ساڑھے 4 ارب روپے جاری ہوں گے۔ بعد میں 10ہزار گھروں پر کام کرنے کی منظوری دی جائے گی۔ برآمدی صنعتوں کے لئے استعمال ہونے والی 82اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔گزشتہ روز ہم نے برآمدی صنعتوں کو 44 ارب روپے کا فائدہ دیا، کیونکہ ہمارے 2ہدف ہیں کہ غریب کو بچانا ہے اور برآمد کنندگان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ وفاقی حکومت 5ایسے اقدامات کرنے والی ہے، جس سے 183ارب کی آمدنی متوقع ہے۔92ارب روپے جدید ٹیکنالوجی و انتظامی طریقے استعمال کرکے حاصل ہوں گے۔ انہوں نے سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے سستا ترین سگریٹ پاکستان میں ملتا ہے۔ یہاں ایک ڈالر والا پیکٹ باہر7سے 8 ڈالر میں بکتا ہے۔ سگریٹ کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی کی جائے گی۔ 1800سی سی گاڑی پر ایکسائز ڈیوٹی10 سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے۔ کھانے پینے کی مہنگی درآمدی اشیا پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مہنگے موبائل فونز پر بھی ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ سالانہ 12لاکھ آمدنی والے فرد پر ٹیکس کی شرح برقرار رہے گی۔ 12سے24 لاکھ آمدنی والوں کوٹیکس کی شرح میں دی گئی چھوٹ برقرار رہے گی۔ باقی 70ہزار افراد پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن اس کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہے۔ ان 70ہزار افراد میں تنخواہ دار افراد کیلئے 25 فیصد، جبکہ دیگر کیلئے 29 فیصد ٹیکس رکھا گیا ہے۔کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہوگا، جس پر عائد ٹیکس کی شرح گزشتہ برس سے کم نہیں۔ وزیر اعظم، وزرا اور گورنروں کو مراعات پر دیا جانے والا ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا ہے۔ ٹیکس سلیب8 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔سالانہ 4 لاکھ آمدنی والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ 4 سے8 لاکھ سالانہ آمدنی والوں کو ایک ہزار، 8سے 12 لاکھ سالانہ آمدن والوں کو 2ہزار ٹیکس دینا ہوں گے۔ 12سے 24 لاکھ آمدنی والوں سے5 فیصد، 24 سے 30 لاکھ پر 15 فیصد ٹیکس وصول اور اضافی 60ہزار روپے فکسڈ دینا ہوں گے۔ 30 سے 40 لاکھ آمدنی پر 20فیصد ٹیکس اور ڈیڑھ لاکھ اضافی ادا کرنا ہوں گے۔ 40 سے 50 لاکھ سالانہ آمدنی پر25 فیصد ٹیکس اور ساڑھے 3لاکھ اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ 50لاکھ سالانہ سے زائد آمدنی پر 29فیصد ٹیکس اور 6 لاکھ اضافی دینا ہوں گے۔ سی پیک کے کسی پروگرام و بڑے ڈیمز کی تعمیر میں ایک روپے کی کمی نہیں آنے دی جائے گی۔ کوشش ہوگی کہ ڈیم5 تا 6سال میں مکمل کریں۔گزشتہ برس ترقیاتی منصوبوں پر 661 ارب روپے خرچ ہوئے۔ اس برس سوا 7سو ارب مختص کئے، اس مقصد کیلئے مالیاتی اصلاحات ضروری ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کے 50ارب کراچی کیلئے مختص کئے ہیں۔ تمام کام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کیے جائیں گے اور خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ ماضی کی حکومتوں نے جو اچھے کام کئے ہم ان کی حمایت کریں گے۔ مشکل وقت سے نکلنے کیلئے ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے اور میرا ایمان ہے کہ یہ ملک مسلمانوں نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا، قائد اعظم کی قیادت اور علامہ اقبال کا خواب تھا، یہ ملک اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور اسی لیے اس ملک کا قیام 27ویں شب کو ہوا، لہٰذا اس ملک نے ترقی کرنی ہے۔ انشااللہ پاکستان ایسا ملک بننے جا رہا ہے کہ ناصرف ہم بلکہ دنیا بھی اس پر فخر کرے گی۔گزشتہ برس بجٹ بناتے وقت اس میں خسارے کا تخمینہ 4.1 فیصد لگایا گیا جو 30جون کو مالی سال کے اختتام پر 6.6 فیصد تک پہنچ گیا۔ 2013 میں جب نواز لیگ کی حکومت بنی تو بجٹ خسارہ 8.2 فیصد تھا۔ اس میں 1.6فیصد گردشی قرض کی رقم بھی شامل تھی۔گردشی قرضوں کی ادائیگی کو نکالا جائے تو 6.6فیصد کا خسارہ تھا اور 2018میں نواز لیگ کی حکومت 6.6 فیصد کا خسارہ چھوڑ کر ختم ہوئی۔ 6.6 فیصد خسارے کی رقم 22 کھرب 93ارب روپے تھی۔ یہ تمام خسارہ نہیں تھا۔ بجٹ سے باہر بجلی کے شعبے میں گزشتہ برس ساڑھے 4سو ارب، جبکہ گیس شعبے میں 100ارب تک کا خسارہ ہوا۔ صورتحال برقرار رہتی تو خسارہ 7.2 فیصد، یعنی 29 کھرب ہو جاتا، جس کا ملک کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ 2012.13میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ڈھائی ارب ڈالر تھا جو گزشتہ سال18.1ارب ڈالر ہوگیا۔ یعنی خسارہ ساڑھے7گنا بڑھا، جس سے بیرونی قرضے 60 ارب ڈالر سے 95ارب ڈالر ہوئے۔ قرضوں میں 34 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ قرض لینے کے باوجود زر مبادلہ ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔ ہمارے پاس 2 ماہ کی برآمدات کیلئے بھی زر مبادلہ ذخائر نہیں۔ مشکل حالات ہیں، ہمیں چادر دیکھ کر پیر پھیلانے ہوں گے۔ فیصلے نہ کیے تو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زر مبادلہ کے ذخائر مزید گرے تو روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے، جس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ بہتری صرف آئی ایم ایف سے نہیں آسکتی، مشکلات جب دور ہوں گی، جب ہماری صنعت مضبوط ہوگی، روزگار پیدا ہوں گے، زراعت ترقی کرے گی اور برآمدات بڑھے گی۔ 5سال قبل قرضے 16ہزار ارب تھے جو اب 28ہزار ارب ہیں۔ اس میں وہ 2 ہزار ارب شامل نہیں جو ہمیں نظر نہیں آرہے۔ اسٹیل مل میں بیواؤں کی پنشن بند ہے۔گزشتہ برس 2افراد خود کشی کر چکے ہیں۔ ادھر قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرنے کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ حکومت بنے ہوئے ساڑھے 3ہفتے کے دوران ہی چوروں سےٹیکس وصولی کرتے ہوئے92 ارب کی رقم خزانے میں شامل کردی ہے۔ ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر کا میٹر چل پڑا ہے ۔