قسط نمبر 120
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
مجھے سچن بھنڈاری کا چہرہ پژمردہ دکھائی دیا۔ جب وہ بولا تو لہجے سے بھی شکست خوردگی نمایاں تھی۔ ’’ہاں، سب ٹھیک ہے۔ اپنے دفتر میں میرے لیے اتنا زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ فائلیں کھنگالنا میری ڈیوٹی کا حصہ ہے‘‘۔
میں نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ویری گڈ، اس میں کتنے فوٹو گرافس ہیں؟ میرا مطلب ہے تمہارے آفس میں لگ بھگ کتنے پرتیشد (فیصد) کام پورا ہو گیا ہے؟‘‘۔
اس نے تھکے تھکے لہجے میں بتایا۔ ’’اس میں پچیس فوٹو ہیں۔ سمجھو بیس پرتیشد کے لگ بھگ!‘‘۔ میں نے اطمینان کے اظہار کے لیے سر ہلایا۔ اس نے بات جاری رکھی۔ ’’میرا انومان ہے کہ کل تک ساٹھ پرتیشدکام ہو جائے گا۔ پرسوں اتوار ہے۔ باقی کام سوموار کو ہو سکے گا‘‘۔
میں نے کچھ سوچا اور کہا۔ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ کل سارا دن تم دفتر میں بھی فوٹو بناؤ اور باقی فائلیں چپکے سے گھر لاکر چھٹی کے دن باقی کام مکمل کرلو‘‘۔
میری بات سن کر اس کا چہرہ سُت گیا۔ اس نے روکھے لہجے میں کہا۔ ’’اترتا (جلد بازی) میں مرغی کا پیٹ پھاڑ کے سارے انڈے ایک ساتھ نکالنے کا پرینام (نتیجہ) تو تم جانتے ہوگے مہاشے؟ کیول میں نہیں مارا جاؤں گا۔ تم لوگوں کی یوجنا (منصوبہ بندی) بھی بھنگ ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے تمہارے گلے میں بھی پھندا فٹ ہو جائے‘‘۔
میں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ اس کی دھمکی کا مجھ پر کوئی اثر ہوا۔ بلکہ ہنستے ہوئے کہا۔ ’’میری اتنی چنتا کرنے پر دھنے واد (شکریہ)۔ ٹھیک ہے، تم کل زیادہ سے زیادہ کام نکالنے کی کوشش کرنا۔ باقی باتیں صبح ہوں گی‘‘۔
اس کے پاس سے رخصت ہوکر میں کولابا مارکیٹ کی طرف روانہ ہوا۔ میں نے راستے میں خصوصی توجہ دی کہ کوئی میرا تعاقب تو نہیں کر رہا۔ تاہم مجھے کوئی مشکوک گاڑی یا موٹر سائیکل اپنا پیچھا کرتی نظر نہیں آئی۔ ڈھابے پر پہنچ کر میں نے سبزی دال مکس اور ساتھ چپاتیوں کا آرڈر دیا۔ میں نے دوسری چپاتی ختم کی تھی کہ اسلم ڈھابے میں داخل ہوتا نظر آیا۔ اس نے ساتھ والی میز سنبھال کر اپنے لیے چائے منگوالی۔ میں کھانے سے فارغ ہوکر ڈھابے سے باہر نکل آیا اور ٹیکسی کا ہڈ اٹھاکر انجن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔
’’خیریت تو ہے بھیے؟ انجن میں کوئی گڑبڑ ہے کیا؟‘‘۔ اسلم کے لہجے میں ڈرائیوروں والا بھائی چارہ نمایاں تھا۔ میں نے وقت ضائع بغیر کیمرے والا لفافہ اس کی جیب میں ٹھونستے ہوئے سچن سے اپنی گفتگو کا احوال اسے بتا دیا اور اتوار کی چھٹی والی بات بھی بتا دی۔ اس نے کہا کہ وہ افتخار کے علم میں ساری بات لائے گا اور اگر ان کی طرف سے کوئی خصوصی ہدایت ہوئی تو صبح کیمرے کے ساتھ مجھ تک پہنچا دے گااس رات میں بہت پُر سکون نیند سویا۔ میری محنت رنگ لانے لگی تھی۔ مجھے امید تھی اگلے چند دن کے اندر سچن بنڈاری ہمارے مطلب کی تمام معلومات ہمارے حوالے کردے گا، جس کی روشنی میں ہمارے دفاعی ماہرین ہماری سلامتی کے لیے ایک تباہ کن اور مستقل خطرے طیارہ بردار جہاز وکرانت کا کوئی توڑ تلاش کرنے کی کوشش کرسکیں گے۔
اسلم نے حسبِ معمول صبح سویرے اپنے مقررہ وقت پر کیمرا مجھ تک پہنچا دیا۔ وہ ایک پیغام بھی ساتھ لایا تھا کہ، ’’افتخار صاحب کا کہنا ہے کہ سچن پر مزید زور ڈالو کہ وہ زیادہ سے زیادہ متعلقہ فائلیں چوری چھپے گھر لے آئے اور اتوار کے دن بھی کام کرے۔ امید ہے وہ اپنے خوف پر قابو پاکر ہماری بات ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ تاہم اگر بالکل انکار کر دے تو اس پر زور ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ہم انتظار کرلیں گے‘‘۔
میں نے ان کی بات ذہن نشین کرلی اور سیدھا سچن کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے کھردرے سے انداز میں میرا استقبال کیا اور باہر سے ہی ٹالنے کی کوشش کی۔ ’’یار میری ایک بات سنو!‘‘۔ میں نے لگ بھگ زبردستی اس کے ساتھ اس کے گھر کی نشست گاہ میں پہنچ کر کہا۔ ’’تم مجھ سے اپنی دارو پینے کی عیاشی چھپانے کی کوشش کر رہے ہو یا کوئی اور مسئلہ ہے؟ یا تم یہ جتانا چاہتے ہو کہ تم سچی مچی سدھر چکے ہو؟‘‘۔ اس کے ساتھ ہی میں نے میز کے نیچے رکھی شراب کی خالی بوتل کی طرف اشارہ کیا۔
میری بات سن کر وہ کھسیانا سا ہوگیا۔ ’’نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بس یوں ہی!‘‘۔
میں نے شریر لہجے میں کہا۔ ’’یار، تم نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی پاپ کا کام کرنا مجبوری بن جائے تو پھر اس پاپ کا مزا لینا زیادہ بہتر ہے‘‘۔
اس نے یقیناً اصل بے ہودہ لطیفہ سن رکھا تھا۔ چنانچہ اس مشابہت پر اس کے چہرے پر شرمساری کی جھلک نظر آئی۔ میں نے اس کا دھیان کام کی طرف واپس لانے کے لیے کہا۔ ’’اور ہاں، میری وہ فرمائش یاد ہے ناں؟ آج شام کو فائلیں چھپاکر گھر لانی ہیں اور کل چھٹی کے دن زیادہ سے زیادہ کام مکمل کرنا ہے‘‘۔
اس نے تڑخ کر کہا۔ ’’میں نے بتایا تو تھا کہ اس میں بہت زیادہ جوکھم ہے۔ گردن پھنس گئی تو سب کچھ دھرا رہ جائے گا‘‘۔
میں نے اس کے لہجے کی تلخی اور فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ رسک کی شرلی اپنے پاس ہی رکھو مسٹر سچن۔ اب یہ درخواست نہیں حکم ہے۔ ہمارے پاس مزید دیری کی گنجائش نہیں ہے۔ اور ہم سے ہمدردی جتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جان کی بازی لگاکر ہی یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔
میں بخوبی محسوس کر رہا تھا کہ وہ بری طرح جزبز ہے۔ لیکن میں نے اپنے تیوروں میں نرمی کی جھلک نہ آنے دی۔ اسے بھی احساس ہوگیا کہ وہ کتنا بھی واویلا کرلے، میں ٹس سے مس ہونے والا نہیں ہوں۔
بالآخر اس نے شکست خوردہ لہجے میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے، تمہاری یہی اِچھا ہے تو یہ جوکھم مول لینا ہی پڑے گا۔ آگے میری اور تمہاری قسمت۔ لگتا ہے تم میرا ستیاناس کر کے ہی چھوڑو گے‘‘۔
اس کی بات سن کر میں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’یار ہمت پکڑو، کچھ نہیں ہوگا۔ بس آنکھیں کھلی رکھ کر کام کرو۔ اچھا یہ بتاؤ، تمہارے باس نیل کنٹھ کی دلّی کی طرف اڑان کی کوئی جان کاری ملی؟‘‘۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اب تک تو نہیں، پرنتو وہ کسی بھی دن اڑان بھر سکتا ہے‘‘۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے لگا کہ اس نے میرے جملے میں نیل کنٹھ اور اڑان کے باہمی تعلق کا لطف اٹھایا ہے۔ (جاری ہے)